Blog
Books
Search Hadith

اس امر کا بیان کہ اگر محرم نہ تو خود شکار کرے اور نہ اس کی خاطر کیا جائے تو اس کے لیے اس کا کھانا جائز ہو گا

۔ (۴۳۰۵)عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَۃٍ فَاسْتَقْبَلَنَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ فَجَعَلْنَا نَضْرِبُہُنَّ بِعِصِیِّنَا وَسِیَاطِنَا وَنَقْتُلُہُنَّ وَأُسْقِطَ فِی أَیْدِیْنَا، فَقُلْنَا: مَا نَصْنَعُ وَنَحْنُ مُحْرِمُوْنَ؟ فَسَأَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((لَا بَأْسَ بِصَیْدِ الْبَحْرِ۔)) (مسند احمد: ۸۷۵۰)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم حج یا عمرہ کے ایک سفر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، ٹڈیوں کا ایک لشکر ہمارے سامنے آگیا، ہم اپنی لاٹھیوں اورچھڑیوں کے ساتھ ان کو مارنے لگے اور قتل کرنے لگے، پھر ہمیں اپنے کیے پر ندامت ہوئی اور ہم نے کہا: ہم تو محرم تھے، ہم نے کیا کر دیا ہے؟ پس ہم نے اس کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سمندر کے شکار میں کوئی حرج نہیں۔
Haidth Number: 4305
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۳۰۵) تخریج: اسنادہ ضعیف جدا، مؤمل بن اسماعیل سیء الحفظ، وابو المھزم واسمہ یزید ویقال: عبد الرحمن بن سفیان، متروک ۔ أخرجہ ابوداود: ۱۸۵۴، وابن ماجہ: ۳۲۲۲، والترمذی: ۸۵۰ (انظر: ۸۷۶۵)

Wazahat

فوائد: … پوری آیتیوں ہے: {اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗمَتَاعًالَّکُمْوَلِلسَّیَّارَۃِ وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَّاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۔} …’’تمہارے لیے دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے، تمہارے فائدے کے واسطے اور مسافروں کے واسطے اور خشکی کا شکار پکڑنا تمہارے لیے حرام کیا گیا ہے، جب تک تم احرام میں رہو اور اللہ تعالی سے ڈرو جس کے پاس جمع کیے جاؤ گے۔‘‘ (سورۂ مائدہ: ۹۶)اس حقیقت پر اہل علم کا اجماع ہے کہ محرِم کے لیے سمندر کا شکار کرنا، اس کو کھانا اور اس کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور اس شکار سے مراد وہ جانور ہے جو صرف پانی میں زندہ رہ سکتا ہے، جیسے مچھلی۔ سمندر کے شکار سے مراد وہ جانور ہے جو صرف پانی میں رہتا ہے، اس لیے اگر محرِم ایسے جانور کو کنووں اور تالابوں وغیرہ میں پا لے تو اس کا شکار کر سکتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اَلْجَرَادُ مِنْ صَیْدِ الْبَحْرِ۔)) …’’ٹڈی سمندر کے شکار میں سے ہے۔‘‘ (ابوداود: ۱۸۵۳، اسنادہ حسن، میمون بن جابان لاینزل حدیثہ عن درجۃ الحسن) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرِم ٹڈی کا شکار بھی کر سکتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس لحاظ سے اس جانور کو سمندر کا شکار قرار دیا ہو کہ اس کے مردار کا حکم مچھلی کے مردار کی طرح ہے۔ واللہ اعلم بالصواب