Blog
Books
Search Hadith

ان حیوانات کا بیان، جن کو حرم کی حدود کے اندر اور باہر قتل کرنا محرم کے لئے جائز ہے

۔ (۴۳۱۵) عَنْ زَیْدٍیَعْنِی ابْنَ جُبَیْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ عَمَّا یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ فَقَالَ: حَدَّثَتْنِی إِحْدَی النِّسْوَۃِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یُقْتَلُ الْحُدَیَّا وَالْغُرَابُ وَالْکَلْبُ الْعَقُوْرُ وَالْفَأْرَۃُ وَالْعَقْرَبُ۔)) (مسند احمد: ۲۶۹۷۱)

۔ زید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ کسی آدمی نے سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ سوال کیا کہ محرم کون کون سے جانوروں کو قتل کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے ایک خاتون نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چیل، کوے، باؤلے کتے، چوہے اور بچھو کو مارا جا سکتا ہے۔
Haidth Number: 4315
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۳۱۵) تخریج: أخرجہ البخاری: ۱۸۲۷، ۱۸۲۸، ومسلم: ۱۲۰۰ (انظر: ۲۶۴۳۹)

Wazahat

فوائد:… ’’اَلْکَلْبُ الْعَقُوْرُ‘‘ :حقیقت میں اس لفظ کا اطلاق ہر زخمی کرنے والے اور چیر پھاڑ کرنے والے درندے پر بھی ہوتا ہے، جیسے شیر، چیتا، بھیڑیا۔ درندگی میں اشتراکیت کی وجہ سے ان کو بھی ’’کَلْب‘‘ کہتے ہیں۔ (تحفۃ الاحوذی) ہڑکائے ہوئے اور باؤلے کتے کا بھییہی حکم ہو گا۔ امام مالک نے ’’المؤطا‘‘ میںکہا: ہر وہ جانور جو لوگوں کوکاٹے، ان پر حملہ کرے اوران کو ڈرائے، مثلا: شیر، چیتا، فہد، بھیڑیا، وہ عَقُور ہے۔ (فہد،چیتے کی طرح کا ایک درندہ ہوتا ہے)ابو عبیدہ نے سفیان سے یہی قول نقل کیا ہے اور یہی جمہور اہل علم کی رائے ہے۔ ان جانوروں کے لیے لفظ ’’فَاسِق‘‘ استعمال ہوا، اس کا لفظی معنی ہے نکلنے والا، یہاں اس سے مراد وہ جانور ہیں کہ تکلیف پہنچانے اور افساد انگیزی کی وجہ سے جن کا حکم دوسرے جانوروں کے حکم سے خارج ہو گیا ہے۔ اس باب کی احادیث صحیحہ میں درج ذیل کل سات جانوروں کا ذکر ہوا ہے: بچھو، کوا، چیل، چوہا، کلب عقور، سانپ، بھیڑیا۔ کیا ان کے علاوہ کسی جانور کو قتل نہیں کیا جا سکتا؟ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: روایات کے مطابق پانچ جانوروں کو مقید کرنا، اگرچہ اس کے مفہوم میں خصوصیت پائی جاتی ہے، لیکنیہ مفہوم العدد ہے، جو اکثر اہل علم کے نزدیک حجت نہیں ہے، اگر اس کی حجیت تسلیم کر لیں تو اس کو اس معنی پر محمول کیا جائے گا کہ شروع شروع میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانچ جانوروں کے بارے میں ہی حکم دیا، بعد میں ان میں اضافہ کر دیا۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی حدیث کے بعض طرق میں ’’چار‘‘ کا اور بعض میں ’’چھ‘‘ کا لفظ روایت کیا گیا ہے، ’’چار‘‘ کی روایت صحیح مسلم میں ہے، اس میں بچھو کا ذکر نہیں ہے اور ’’چھ‘‘ کی روایت مستخرج ابو عوانہ میں ہے، اس میں بچھو کا ذکر موجود ہے اور سانپ کا اضافہ کیا گیا ہے، صحیح مسلم کی شیبان کیروایت اس روایت کا شاہد ہے، اگرچہ اس میں کسی عدد کا ذکر نہیں ہے، …۔ (فتح الباری: ۴/ ۴۴) جن روایات میں خون خوار درندے اور چیتے وغیرہ کے الفاظ ہیں، ان پر نقد کیا گیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مذکورہ بالا جن جانوروں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے یہ جانور انسان کے لیے ضرر، نقصان، تکلیف، خوف اور فساد کا سبب بن سکتے ہیں، بلکہ اِن کی وجہ سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے، اس لیے جس جانور میں یہ وصف پایا جائے، محرِم و غیر محرِم کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اس کو حرم اور غیر حرم میں قتل کر دے، جبکہ کلب ِ عقور کا مفہوم بھییہی بنتا ہے۔