Blog
Books
Search Hadith

حج افراد کرنے والے کا طواف

۔ (۴۳۷۰) عَنْ وَبَرَۃَ قَالَ: أَتٰی رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما فَقَالَ: أَیَصْلُحُ أَنْ أَطُوْفَ بِالْبَیْتِ وَأَنَا مُحُرِمٌ؟ قَالَ: مَا یَمْنَعُکَ مِنْ ذٰلِکَ؟ قَالَ: إِنَّ فُلَانًا یَنْہَانَا عَنْ ذٰلِکَ حََتّٰییَرْجِعَ النَّاسُ مِنَ الْمَوْقِفِ، وَرَأَیْتُہُ کَأَنَّہُ مَالَتْ بِہِ الدُّنْیَا وَأَنْتَ أَعْجَبُ إِلَیْنَا مِنْہُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: حَجَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَطَافَ بِالْبَیْتِ وَسَعٰی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، وَسُنَّۃُ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَرَسُوْلِہِ أَحَقُّ أَنْ تُتَّبَعَ مِنْ سُنَّۃِ ابْنِ فُلَانٍ إِنْ کُنْتَ صَادِقًا۔ (مسند احمد: ۵۱۹۴)

۔ وبرہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی خدمت میں آیا اور ان سے پو چھا: کیایہ جائز ہے کہ میں (حج افراد کے) احرام کی حالت میں بیت اللہ کا طواف کروں؟ انھوں نے کہا: تمہیں اس سے کونسی چیز مانع ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا:فلاں آدمی ہمیں اس سے اس وقت تک منع کررہا ہے، جب تک لوگ عرفات سے واپس نہ آ جائیں، نیز میں نے اسے دیکھا ہے کہ دنیا نے اس کو فتنے میں ڈال رکھا ہے، تاہم ہماری نظر میں آپ اس سے برتر ہیں۔سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حج کیا تھا تو آپ نے بیت اللہ کا طوا ف اور صفا مروہ کی سعی کی تھی، اگر تمہاری بات درست ہے کہ فلاں آدمی تمہیں احرام کی حالت میں طواف کرنے سے منع کرتا ہے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا طریقہ فلاں کے طریقے سے اولیٰ ہے۔
Haidth Number: 4370
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۳۷۰) تخریج: أخرجہ مسلم: ۱۲۳۳(انظر: ۵۱۹۴)

Wazahat

فوائد:… فلاں آدمی سے مراد سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ہیں، ان کا خیالیہ تھا کہ حج افراد کرنے والا طواف نہ کرے، وگرنہ اس کو حج فسخ کرنا پڑے گا جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو حکم دیا تھا۔ لیکن جمہور اہل علم سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق جب اس آدمی نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے بارے میں کہاکہ ’’دنیا نے اس کو فتنے میں ڈال رکھا ہے‘‘ تو سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے تواضع اور عاجزی کرتے ہوئے کہا: وَاَیُّنَا اَوْ اَیُّکُمْ لَمْ تَفْتِنْہُ الدُّنْیَا۔ … اور ہم میں سے یا تم میں سے کون ہے، جس کو دنیا نے فتنے میں مبتلا نہیں کیا۔سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے بارے میں فتنے والی بات کرنے کی بنیادیہ تھی کہ وہ والی ٔ بصرہ بن گئے تھے، جبکہ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کسی قسم کی ولایت کو اختیار نہیں کیا تھا۔