Blog
Books
Search Hadith

عرفہ میں سواری پر وقوف کرنے اور وہاں خطبہ دینے اور دعاکرنے کا بیان

۔ (۴۴۵۱) عَنْ أَبِی مَالِکٍ الْأَشْجَعِیِّ حَدَّثَنِی نُبَیْطُ بْنُ شُرَیْطٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: إِنِّی لَرَدِیْفُ أَبِی فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ، إِذْ تَکَلَّمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُمْتُ عَلٰی عَجُزِ الرَّاحِلَۃِ، فَوَضَعْتُ یَدِی عَلٰی عَاتِقِ أَبِی فَسَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: ((أَیُّیَوْمٍ أَحْرَمُ؟)) قَالُوْا: ھٰذَا الْیَوْمُ؟ قَالَ: ((فَاَیُّ بَلَدٍ اَحْرَمُ؟)) قَالُوْا: ھٰذَا الْبَلَدُ، قَالَ: ((فَاَیُّ شَھْرٍ اَحْرَمُ؟)) قَالُوْا:ھٰذَا الشَّہْرُ، قَالَ: ((فَإِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَہْرِ کُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا، ھَلْ بَلَّغْتُ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: ((اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ، اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ۔)) (مسند احمد: ۱۸۹۲۹)

۔ سیدنا نبیط بن شریط کہتے ہیں: میں حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے والد کے ہمراہ سواری پر سوار تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبہ شروع فرما دیا،میں سواری کے پچھلے حصہ پر کھڑا ہوگیا، میں نے اپنا ہاتھ اپنے والد کے کندھے پر رکھ لیا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کون سادن زیادہ حرمت والا ہے؟ لوگوں نے کہا: آج کا دن۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون سا شہر زیادہ حرمت والا ہے؟ لوگو ں نے کہا: یہ شہر۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون سا مہینہ زیادہ حرمت والا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ مہینہ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے خون اور مال ایک دوسرے پر اسی طرح احترام اور حرمت ہیں، جیسے آج کے دن کی،اس مہینے اور اس شہر میں حرمت ہے،لوگو !کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ لوگوں نے کہا:جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! گواہ ہو جاؤ، اے اللہ! گواہ ہو جاؤ۔
Haidth Number: 4451
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۴۵۱) تخریج: اسنادہ صحیح، وانظر الحدیث السابق (انظر: ۱۸۷۲۲)

Wazahat

فوائد:… ’’اے اللہ! گواہ ہو جاؤ۔‘‘ یعنی اس بات پر گواہ ہو جاؤ کہ لوگ یہ اقرار کر رہے ہیں کہ میں (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) نے اِن تک تیرا پیغام پہنچا دیا اور تیرا گواہ ہو جانا ہی کافی ہے۔ قارئین کرام! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیات ِ مبارکہ کا یہ سب سے پہلا اور آخری بڑا اجتماع تھا، اس اجتماع کے موقع پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نبوت و رسالت کا مقصد پورا ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا، جبکہ یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعثت والی زندگی کا پہلا اور آخری حج تھا، غورکریں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے زیادہ حرمت والے دن میں، سب سے زیادہ حرمت والے شہر میں اور سب سے زیادہ حرمت والے مہینے میں خطاب کر رہے ہیں، حرمتوں پر حرمتیں سوار ہو رہی ہیں، لیکن تعلیم کس چیز کی دی جا رہی ہے کہ دوسرے انسان کی جان، مال اور عزت کا خیال رکھنا۔ کاش! امت ِ مسلمہ اس راز کو سمجھ جاتی اور انسانیت کی قدر ومنزلت کے تقاضے پورے کرنا شروع کر دیتی۔ حضرات! وہ تقاضے کیا ہیں؟یقینایہ اتنا طویل موضوع تو نہیں ہے، لیکن اس کو سمجھنے کے لیے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جس بہت بڑے شرعی مزاج کی ضرورت ہے، اس کا اِس زمانے میں شدید فقدان ہے۔ اپنی ذاتوں سمیت جتنے لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑا، ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جو احترامِ مسلمان کے تقاضے پورے کر رہا ہو، ہر شخص نے اپنی زندگی کے لیے چند ایک ناقص سی عبادات کا تعین کر رکھا ہے، جن کی بنا پر وہ اتنا کامل مسلمان بن گیا ہے کہ دوسرے ہر مسلمان کو ناقص سمجھتا ہے۔ برائے مہربانی! ان گزارشات کو مفروضہ جات مت سمجھیں،یہ حقائق ہیں، لیکن مصیبتیہ ہے کہ ہمارے مزاجوں کے اندر ان کو تسلیم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اس موقع ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نماز، روزے، حج، زکوۃ اور دوسرے واجباتِ اسلام پر عمل کرنا آسان ہے، لیکن حقوق العباد کی ادائیگی بہت مشکل ہے، الا یہ کہ مزاج کو شریعت کی روشنی سے منوّر کر لیا جائے۔ سیاسی دھڑوں، مذہبی متعصب اور غیرمنصف گروہوں، خاندانی رقابتوں، ذاتیات کے بھوتوں اور قدیم دشمنیوں اور کِینوں کی وجہ ہم نے اسلام کی ٹنڈ منڈ سی شکل کو کامل اسلام سمجھ لیا ہے، آپ خود غور کریں کہ ایک آدمی والدین کا بھی نافرمان ہو، اپنی اولاد کے اسلامی حقوق بھی ادا نہ کر رہا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بے نماز بھی ہو، انصاف سے بتائیں کہ ایسے بندے سے اسلام کی کون سی شِق پورے کرنے کی امید کی جا سکتی ہے، جبکہ محتاط اندازے کے مطابق ہمارے معاشرے کے (۹۳) فی صد لوگ ان جرائم میں مبتلا ہیں۔ آس مقام پر ہم صرف ایک مثال ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں: ایک آدمی اپنے خاندان کے ایک بزرگ کے ساتھ نمازِ عید ادا کر کے واپس آ رہا تھا، راستے میں رشتہ دار سیاسی مخالفوں کی عید گاہ پڑتی تھی، اللہ تعالی کاکرنا کہ جب وہ لوگ اپنے مخالفوں کی عید گاہ کے قریب پہنچے تو وہ بھی فارغ ہو کر باہر آنا شروع ہو گئے، اس آدمی نے اپنے بزرگ سے کہا کہ اِن لوگوں سے اب ٹاکرا تو ہو گیا ہے، اس لیے عید کی مناسبت سے ان کو مل لینا چاہیے، لیکن وہ جھٹ سے بولا: ہم کوئی بے غیرت ہیں؟ جبکہ وہ بزرگ حاجی صاحب بھی، حفظِ قرآن کی صفت سے بھی متصف تھے اور نمازوں کے بھی بڑے پابند تھے اور ان کو کافی سارا مذہبی بھی سمجھا جاتا تھا، لیکن خوشی کے موقع پر کسی مسلمان سے ملاقات کر لینا ان کے نزدیک بے غیرتی تھا۔ کئی آیات اور اَن گنت احادیث، جو ان لوگوں سے ملاقات کر لینے کا تقاضا کرتی تھیں، ان کا کیا بنے گا۔ لوگو! اپنی اصلاح کی طرف آؤ اور بزعم خود اپنے آپ کو بہت کچھ نہ سمجھ بیٹھو۔