Blog
Books
Search Hadith

دس ذوالحجہ کو قربانی، حجامت، رمی اور طواف افاضہ میں تقدیم و تاخیر کے جائز ہو نے کا بیان

۔ (۴۵۵۰) عَنْ جَابِرِ (بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ) أَنَّہُ قَالَ: نَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَلَقَ وَجَلَسَ لِلنَّاسِ، فَمَا سُئِلَ عَنْ شَیْئٍ إِلَّا قَالَ: ((لَا حَرَجَ، لاَ حَرَجَ۔)) حَتّٰی جَائَ رَجُلٌ فَقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، قَالَ: ((لَا حَرَجَ۔)) ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِیَ، قَالَ: ((لَا حَرَجَ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَرَفَۃُ مَوْقِفٌ وَ الْمُزَدَلِفَۃُ کُلُّہَا مَوْقِفٌ، وَمِنًی کُلُّہَا مَنْحَرٌ، وَکُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃَ طَرِیْقٌ وَمَنْحَرٌ۔)) (مسند احمد: ۱۴۵۵۲)

۔ سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قربانیوں سے فارغ ہو کر لوگوں کے لیے بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کسی بھی امر کی تقدیم وتاخیرکے بارے میں جو سوال کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواباً فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔‘ یہاں تک کہ ایک آدمی نے آکر کہا: میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوالیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ بعد ازاں ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: میں نے رمی سے پہلے سر منڈوالیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ نیز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سارا عرفہ وقوف کی جگہ ہے، سارا مزدلفہ جائے وقوف ہے اور سارا منیٰ قربان گاہ ہے اور مکہ کی تمام گلیاں راستے اور قربان گاہیں ہیں۔
Haidth Number: 4550
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۵۵۰) حدیث صحیح ۔ أخرج القطعۃ الاولی منہ ابن ماجہ: ۳۰۵، والقطعۃ الثانیۃ منہ ابوداود: ۱۹۳۷، وھذہ القطعۃ الثانیۃ مذکورہ فی حدیث طویل، أخرجہ مسلم: ۱۲۱۸ عن جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ (انظر: ۱۴۴۹۸)

Wazahat

فوائد:…دس ذوالحجہ کو مزدلفہ سے واپس آ کر کل چار امور سرانجام دیئے جاتے ہیں، ان کی مسنون ترتیبیہ ہے: ۱۔ جمرۂـ عقبہ کی رمی ۲۔ہدی ذبح یا نحر کرنا ۳۔ حجامت بنوانا، تحلیق کی جائے یا تقصیر ۴۔ طوافِ افاضہ جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اگر یہ افعال اس ترتیب کے ساتھ سرانجام نہ دیئے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ کوئی جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہو یا بھول کر یا جہالت کی وجہ سے۔ درج بالا احادیث سے اسی رائے کی تائید ہوتی ہے۔ مسنون ترتیب کی بہرحال اہمیت ہے، اس لیے قصداً تو اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے، ہاں بھولنے یا بے علمی کی وجہ سے ترتیب بدل جائے تو الگ بات ہے۔ (عبداللہ رفیق)