Blog
Books
Search Hadith

منیٰ سے واپسی پر وادیٔ محصّب میں ٹھہرنے کا بیان

۔ (۴۵۷۱) عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْغَدِ یَوْمَ النَّحْرِ وَھُوَ بِمِنًی: ((نَحْنُ نَازِلُوْنَ غَدًا بِخَیْفِ بَنِیْ کِنَانَۃَ حَیْثُ تَقَاسَمُوْا عَلَی الْکُفْرِ۔)) یَعْنِی بِذٰلِکَ الْمُحَصَّبَ، وَذٰلِکَ أَنَّ قُرَیْشًا وَکِنَانَۃَ تَحَالَفَتْ عَلٰی بَنِیْ ھَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ أَنْ لَا یُنَاکِحُوْھُمْ وَلَا یُبَایِعُوْھُمْ حَتّٰییُسْلِموْا إِلَیْہِمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۷۲۳۹)

۔ سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس ذوالحجہ کو دن کے شروع میں فرمایا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منیٰ میں تھے : ہم کل خیف ِ بنی کنانہ میں ٹھہریں گے، جہاں کفار نے مسلمانوں کے خلاف آپس میں قسمیں اٹھائی تھیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد وادیٔ محصّب تھی،اس کی تفصیلیہ ہے کہ قریش اور بنو کنانہ نے اس مقام پر بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ اس وقت تک نہ نکاح کریں گے اور نہ خریدو فروخت، جب تک وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان کے حوالے نہیں کر دیں گے۔
Haidth Number: 4571
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۵۷۱) تخریج: أخرجہ البخاری: ۱۵۹۰، ومسلم: ۱۳۱۴(انظر: ۷۲۴۰)

Wazahat

فوائد: … ہم کل خیف ِ بنی کنانہ میں ٹھہریں گے۔ اس حدیث کے مطابق تو یہ ذوالحجہ کی گیارہ تاریخ بنتی ہے، جب کہ تیرہ ذوالحجہ تک تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مِنٰی میں قیام کرنا تھا، اصل بات یہ ہے کہ اگرچہ غَدًا کا اطلاق موجودہ دن کے متصل بعد والے دن پر ہوتا ہے، لیکن عربوں نے وسعت اختیار کی اور اس لفظ کا اطلاق آنے والے کسی بھی وقت پر بھی کر دیا اور یہاںیہی معنی مقصود ہے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایام تشریق کے بعد مِنٰی سے روانہ ہوناتھا۔ اس حدیث ِ مبارکہ سے پتہ چلا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بڑے اہتمام اور عزم کے ساتھ وادیٔ محصب میں قیام کیا تھا، اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقصود اسلام کا اظہار اور غلبہ تھا، یہ قیاماتفاقی طور پر نہ تھا۔ آنے والی احادیث میں اس وادی میں قیام کے متعلق سیدہ عائشہ اور سیدنا ابن عباس کی جو آراء بیان کی گئی ہیں، وہ ان ہستیوں کا ذاتی فہم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اِن کو مذکورہ بالا حدیث کا علم نہ ہو سکا تھا، باب کے آخر میں مزید بحث کی جائے گی۔