Blog
Books
Search Hadith

منیٰ سے واپسی پر وادیٔ محصّب میں ٹھہرنے کا بیان

۔ (۴۵۷۷) عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ أَنْ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَہْجَعُ ھَجْعَۃً بِالْبَطْحَائِ وَذَکَرَ أَنَّ رَسُوْلََ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَلَ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۴۸۲۸)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ سب حضرات وادی محصّب میں ٹھہرا کرتے تھے۔
Haidth Number: 4578
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۵۷۸) تخریج: انظر الحدیث السابق

Wazahat

فوائد:… سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ((مِنَ السُّنَّۃِ النُّزُوْلُ بِــ(الْأَبْطَحِ) عَشِیَّۃَ النَّفَرِ)) (ادائے حج کے بعد) روانگی کی شام کو ابطح وادی میں قیام کرنا سنت ہے۔ (معجم اوسط : ۱/۱۹۸/۲ـ ۱۹۹/۱، صحیحہ: ۲۶۷۵) امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: جونہی (المعجم الأوسط) کا مصوّر نسخہ مجھے ملا تو میں نے اس حدیث کی تخریج پیش کرنے میں جلدی کی، کیونکہیہ حدیث بڑی عظیم الشان تھی اور بہت کم مخرجین نے اس کو بیان کیا اور تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث امام مسلم ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کی درج ذیل روایت کا قویشاہد ہے: نافع ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خیال تھا کہ وادیٔ محصب میں ٹھہرنا سنت ہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں: معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے باپ سے یہ مسلک وصول کیا ہو گا، اس طرح ان کی رائے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی شاہد کی وجہ سے قوی ہو جائے گی۔ اور یہ حقیقت اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ ابن عمر کیرائے کی بہ نسبت، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کییہ رائے وادی ٔ محصّب میں قیام کرنے پر قوی دلالت کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہیہ بات معروف ہے کہ سیدنا ابن عمر، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اطاعت کرنے کے بہت زیادہ پابند تھے، حتی کی ان امور میں بھی، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اتفاقاً صادر ہوتے تھے، نہ کہ قصداً۔ اس دعوے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، امام منذری ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اپنی ترغیب کے شروع میں بعض کا ذکر کیا ہے۔ رہا مسئلہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا، تو وہ تو آثار کی پیروی کرنے سے منع کرتے تھے، لیکن جب وہ بالجزم اس رائے کا اظہار کریں گے کہ وادیٔ محصب میں ٹھہرنا سنت ہے تو دل مطمئن ہو کر اس امر کی طرف مائل ہو گا کہ ان کی مراد یہ ہے کہ یہ ایسی سنت ہے، جس کا التزام کرنا مقصود ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں: ہم منی میں تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں فرمایا: ((نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا بِخَیْف بِنَی کَنَانَۃُ حَیْثُ تَقَاسَمُوا عَلٰی الْکُفْرِ۔)) … ہم کل خیف بنی کنانہ میں اتریں گے، جہاں انھوں نے کفر پر ایک دوسرے سے معاہدہ کیا تھا۔ (بخاری، مسلم) چونکہ قریش اور بنو کنانہ نے اس مقام پر بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف یہ معاہدہ پاس کیا تھا کہ وہ اُن سے نکاح کریں گے نہ خرید و فروخت، جب تک وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان کے سپرد نہ کردیں۔ خیف بنی کنانہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد وادیٔ محصّب تھی۔ امام ابن قیم ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے (زاد المعاد) میں کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مقصد یہ تھا کہ اس مقام پر اسلام کے شعائر کا اظہار کیا جائے، جہاں کافروں نے اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے کفر کے شعائر کا اظہار کیا تھا۔ یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت ِ مبارکہ تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کفر و شرک کے مقامات پر توحید کے شعائر کا قیام عمل میں لاتے تھے، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ مسجد ِ طائف، لات و عزی کے مقام پر تعمیر کی جائے۔رہا مسئلہ صحیح مسلم کی اس روایت کا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ وادی ٔ ابطح (وادیٔ محصّب) میں اترنا سنت نہیں ہے اورسیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اس پڑاؤ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔محققین نے اِ ن روایات کے دو جوابات دیے ہیں: (۱)مثبت کو منفی کرنے والے پر مقدّم کیا جاتا ہے، (۲) سرے سے ان دو میں کوئی تضاد اور تناقض نہیں ہے، کیونکہ نفی کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس مقام پر اترنا حج کے مناسک میں سے نہیں ہے کہ اس کو ترک کرنے کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم آئے اور ثابت کرنے والوں نے چاہا ہے کہ تمام افعال میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیروی کی جائے، وہ بھی اس چیز کو لازم نہیں قرار دیتے۔ مکہ کی وادی کے بہاؤ کی جگہ کو ابطح کہتے ہیں، اس کی جمع بطاح اور اباطح آتی ہے۔ اسی سے قریش البطاح کہا جاتا ہے، یعنی وہ لوگ جو مکہ کی ابطح وادیوں میں اترتے تھے۔ وادیٔ محصّب میں اترنے کو تَحْصِیب کہتے ہیں،یہ وہ گھاٹی ہے جو مکہ اور منی کے درمیان ابطح کی طرف نکلتی ہے، یہی خیف بنی کنانہ بھی ہے۔ (صحیحہ: ۲۶۷۵)