Blog
Books
Search Hadith

مکہ مکرمہ سے ہجرت کر جانے والا آدمی مناسکِ حج کی ادائیگی کے بعد کتنا عرصہ وہاں قیام کرسکتا ہے؟

۔ (۴۵۷۹) عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ الْحَضْرَمِیِّ إِنْ شَائَ اللّٰہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: یَمْکُثُ الْمُہَاجِرُ بِمَکَّۃَ َبعْدَ َقضَائِ نُسُکِہِ، ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۱۹۱۹۴)

۔ سائب بن یزید سے روایت ہے وہ علاء بن خضرمی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مکہ سے ہجرت کرکے جانے والا آدمی مناسک حج کی ادائیگی کے بعد مکہ میں تین دن قیام کرسکتا ہے۔
Haidth Number: 4579
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۵۷۹) تخریج: أخرجہ البخاری: ۳۹۳۳، ومسلم: ۱۳۵۲(انظر: ۱۸۹۸۵)

Wazahat

فوائد: …صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((یُقِیْمُ الْمُھَاجِرُ بِمَکَّۃَ، بَعْدَ قَضَائِ نُسُکِہٖ،ثَـلَاثًا۔)) کَأَنَّہٗیَقُوْلُ: لَایَزِیْدُ عَلَیْھَا)) … مہاجر لوگ مناسک ِ حج ادا کرنے کے بعد مکہ میں تین دن ٹھہر سکتے ہیں۔ گویا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ فرمانا چاہتے تھے کہ مہاجر اس مقدار سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتے۔ اس حدیث کی فقہ یہ ہے کہ جو لوگ فتح مکہ سے قبل مکہ سے ہجرت کر کے چلے گئے تھے، ان کے لیے مکہ میں اقامت اختیار کرنا حرام تھا، البتہ حج اور عمرہ کے ارادے سے آ سکتے تھے، لیکن ان کو بھی فراغت کے بعد صرف تین دنوں تک اس شہر میں رہنے کی رخصت تھی، اس سے زیادہ وہ نہیں رہ سکتے تھے۔ ہمارا مقصود یہ ہے کہ یہی مہاجرین حجۃ الوداع کے موقع پر دس دنوں تک مکہ مکرمہ میں رہے، اگر منی، عرفات اور مزدلفہ وغیرہ کو علیحدہ سفر تسلیم کیا جائے تو وہ چار ذوالحجہ سے آٹھ ذوالحجہ تک تو مکہ مکرمہ میں ہی رہے اور قصر کرتے رہے، لیکن ان کا مقصد ادائیگی ٔ حج تھا ، جو ابھی تک ادا نہیں ہوا تھا، اس لیے ان کو مسافر ہی سمجھا گیا، اور یہی صحابہ کرام فتح مکہ کے موقع پر انیس دنوں کے لیے اسی شہر میں رہے، لیکن ان کے لیے اتنی مدت رہنا بھی ضروری تھا۔ جب وہ مناسک ِ حج سے فارغ ہو گئے اور رہنے یا جانے کا اختیار مل گیا تو ان کو صرف تین دنوں کی مہلت دی گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اس مدت سے زیادہ مکہ مکرمہ میں رہے تو وہ اس کے مقیم بن جائیں گے اور ان کی ہجرت کالعدم ہو جائے گی۔ اس کا مفہومیہ ہوا کہ کسی عذر یا مجبوری کی بنا پر کسی علاقے میں ٹھہرنا اور بات ہے اور اختیاری طور پر قیام کرنا اور بات ہے، اِ ن دونوں حالتوں پرمختلف احکام مرتّب ہوں گے۔ مہاجر صحابی سیّدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حجۃ الوداع کے موقع پر بیمار ہو گئے اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ فوت ہو جائیں گے، … …نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اَللّٰھُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِیْ ھِجْرَتَھُمْ، وَلَا تَرُدَّھُمْ عَلٰی أَعْقَابِھِمْ، لٰکِنَّ الْبَائِسَ سَعْدُ بْنُ خَوْلَۃَ۔)) یَرْثِیْ لَہٗرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ تُوُفِّیَ بِمَکَّۃَ)) … اے اللہ! میرے صحابہ کے لیے ان کی ہجرت کو جاری کر دے اور ان کو ان کی ایڑھیوں کے بل نہ لوٹا دے، لیکن بے چارہ سعد بن خولہ۔ (آخری جملے میں) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وجہ سے غم کا اظہار کر رہے ہیں کہ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مکہ میں فوت ہو گئے تھے۔ اس حدیث کا حکم صرف ان صحابہ کے لیے تھا، جو اللہ تعالی کے لیے مکہ مکرمہ کو چھوڑ گئے تھے، فتح مکہ کے بعد تو اس شہر سے ہجرت کر جانے کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی شہر سے اسی طرح ہجرت کرتا ہے، جیسے صحابۂ کرام نے مکہ مکرمہ سے کی تھی اور پھر وہی شہر دار الاسلام بن جاتا ہے تو کیا وہ شخص اس شہر میں اقامت اختیار کر سکتا ہے؟ ظاہر بات تو یہی ہے کہ جو آدمی اللہ تعالی کے لیے کسی شہر سے ہجرت کر جائے، اس کو دوبارہ وہاں بسیرا نہیں کرنا چاہیے، واللہ اعلم بالصواب۔ اس حدیث ِ مبارکہ سے یہ مفہوم کشید کرنا درست ہے کہ اگر کوئی آدمی گھر سے دور کسی مقام پر اختیاری طور پر تین سے زیادہ دنوں تک قیام کرنا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مقیم سمجھے اور پوری نماز پڑھے، واللہ اعلم بالصواب۔اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے حدیث نمبر (۲۳۷۶) اور اس کے فوائد دیکھیں۔