Blog
Books
Search Hadith

اونٹ کا دس افراد کو، گائے کا سات افراد کو اور ایک بکری کا ایک گھر والوں کو بطورِ قربانی کفایت کرنا

۔ (۴۶۸۸)۔ عَنْ أَبِي الأشَدِّ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہِ۔ قَالَ: کُنْتُ سَابِعَ سَبْعَۃٍ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَأَمَرَنَا فَجَمَعَ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا دِرْھَمًا فَاشْتَرَیْنَا أُضْحِیَّۃً بِسَبْعِ الدَّرَاھِمِ فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہ، لَقَدْ أَغْلَیْنَا بِھَا۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ أَفْضَلَ الضِّحَایَا أَغْلاھَا وَ أَسْمَنُھَا۔)) وَ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخَذَ رَجُلٌ بِرِجْلٍ وَ رَجُلٌ بِرِجْلٍ وَ رَجُلٌ بِیَدٍ وَ رَجُلٌ بِیَدٍ وَ رَجُلٌ بِقَرْنٍ وَ رَجُلٌ بِقَرْنٍ وَ ذَبَحَھَا السَّابِعُ وَ کَبَّرْنَا عَلَیْھَا جَمِیْعًا۔ (مسند أحمد: ۱۵۵۷۵)

۔ ابو اشد سلمی اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا (سیدنا ابو المعلی یا سیدنا عمرو بن عبسہ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ہم کل سات افراد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا اور ہم میں سے ہر ایک نے ایک ایک درہم جمع کیا اور ہم نے سات درہموں کے عوض قربانی کا ایک جانور خرید تو لیا لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلاتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے تو بہت مہنگا جانور لیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ فضیلت والی قربانی وہ ہے، جس کی قیمت سب سے زیادہ ہو اور جو سب سے زیادہ موٹی تازی ہو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا اور ایک آدمی نے پچھلی ٹانگ کو، دوسرے نے بھی دوسری پچھلی ٹانگ کو، ایک نے اگلی ٹانگ کو، دوسرے نے دوسری اگلی ٹانگ کو، ایک نے ایک سینگ کو اور دوسرے نے دوسرے سینگ کو پکڑا اور ساتویں آدمی نے اس کو ذبح کیا اور ہم سب نے تکبیر کہی تھی۔
Haidth Number: 4688
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۶۸۸) تخریج: اسنادہ ضعیف لضعف بقیۃ بن الولید، وعثمانُ بن زفر الجھنی مجھول، أخرجہ الحاکم: ۴/ ۲۳۱، والبیھقی: ۹/ ۲۶۸ (انظر: ۱۵۴۹۴)

Wazahat

فوائد:… اب ظاہر پرستی اور نمودو نمائش کا دور ہے، کئی لوگ جو اللہ تعالیٰ کے فرائض و واجبات سے غافل ہیں، وہ مہنگے مہنگے اور ایک سے زائد جانوروں کی قربانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، واضح طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان کا عمل رائیگاں جائے گا، لیکن یہ گزارش ضرور کی جائے گی کہ وہ اپنے عزم کو پاکیزہ کرنے پر توجہ دیں، یعنی وہ سوچیں کہ اس عمل سے ان کا کیا مقصد ہے، کیا اللہ تعالیٰ کی راہ میں قیمتی جانور پیش کرنا مقصود ہے، یا ان کے سرمائے کا تقاضا ہے، یا لوگوں سے مرعوبیت ہے، یا نمود ونمائش مقصود ہے، اس نقطے پر ان کو کافی غور کرنا پڑے گا، وگرنہ ان سے ایک الزامی سوال بھی کیا جائے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فرائض و واجبات سے غافل ہے، حرام امور کا ارتکاب کرتے ہیں، لیکن قربانی کے مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کیسے یاد آ جاتی ہے؟ اس الزامی سوال کی وجہ یہ ہے جو آدمی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہے، اس کے شرعی قانون یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے محرمات سے بچ کر فرائض کی ادائیگی کرے اور پھر نوافل اور مستحبات کا اہتمام کرے۔