Blog
Books
Search Hadith

منی کا بیان

۔ (۴۷۲)۔عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ عَائِشَۃَ ؓ أَنَّہَا کَانَتْ تَغْسِلُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم۔ (مسند أحمد: ۲۵۸۰۷)

سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے کپڑے سے منی کو دھویا کرتی تھیں۔
Haidth Number: 472
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۷۲) تخریج: أخرجہ البخاری: ۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۱، ومسلم: ۲۸۹ (انظر: ۲۵۲۹۳)

Wazahat

فوائد:…یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے کہ منی پاک ہے یا ناپاک ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ سنجیدگی سے مطالعہ کریں، ضروری نہیں کہ جس چیز کو وہ اجنبی سمجھتے ہوں، وہ اجنبی ہی ہو۔ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ، امام شافعی، امام احمد، امام ابن حزم، امام داود، امام اسحاق، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، امام صنعانی، صبحی حسن حلاق اور ڈاکٹر وہبہ رخیلی وغیرہ کا خیال ہے کہ منی پاک ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شوکانی وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ منی ناپاک ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓنے کہا: ((انما ھو بمنزلۃ المخاط والبصاق)) … منی تو ناک کی رطوبت اور تھوک کی مانند ہے۔ (دارقطنی: ۱/ ۱۲۴، بیھقی: ۲/ ۴۱۸) شیخ البانی نے کہا: اس حدیث کو مرفوعا بیان کرنا وہم ہے، اگرچہ اس میں منی کی طہارت کا جو حکم بیان کیا گیا ہے، وہ درست ہے، اس میں ہمارے لیے سیدنا ابن عباس ؓ کا بالیقین کہہ دینا کافی ہے کہ منی تو ناک کی رطوبت اور تھوک کی طرح ہے اور نہ تو ان کی مخالفت کرنے والا کوئی صحابی معروف ہے اور نہ کتاب و سنت کی کوئی دلیل ان کے اس قول کے متناقض ہے، ابن قیم نے بدائع الفوائد میں مناظرۃ بین فقیھین فی طھارۃ المنی و نجاستہ کے عنوان میں اس موضوع پر بہت اہم اور انتہائی تحقیقی بحث کی ہے۔ (سلسلۃ ضعیفہ: ۹۴۸، ۲/ ۳۶۰) منی کو نجس قرار دینے والوں نے جتنے دلائل پیش کیے ہیں، ان میں قابل توجہ صرف دو باتیں ہیں:(۱) وہ احادیث، جن میں منی کے دھونے کا ذکر ہے۔ (۲) منی، پیشاب کی جگہ سے خارج ہوتی ہے، لہٰذا اس پر اسی کا حکم لگایا جائے گا۔ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ یہ دونوں دلائل منی کی نجاست پر دلالت نہیں کرتے، کیونکہ کسی چیز کو دھونے سے یہ لازم تو نہیں آتا ہے کہ وہ پلید ہے، رہا مسئلہ دوسری دلیل کا، تو ہم منی کے ذاتی حکم پر بحث کر رہے ہیں، اس چیز پر بحث نہیں ہو رہی کہ پیشاب کے اجزاء اس میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں۔ منی کو پاک قرار دینے والوں نے جتنے دلائل پیش کیے ہیں، ان کی زیادہ مضبوطی بھی دو دلائل میں ہے:(۱) ہر چیز اصل میں پاک اور طاہر ہے، جب تک کتاب و سنت سے کسی چیز کے پلید ہونے کی واضح دلیل نہیں آئے گی، اس وقت تک اس کو پاک سمجھا جائے گا اور منی کے پلید ہونے کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔ (۲) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا اس کپڑے میں نماز پڑھنا، جس سے منی کو صرف کھرچا گیا تھا۔ یہ دونوں دلائل مضبوط ہیں اور نجاست کے قائلین کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کھرچنا بھی پاک کرنے کا ایک طریقہ ہے، کیونکہ شریعت میں پاک کرنے کا اس قسم کا کوئی قانون نہیں ہے کہ نجاست کے بعض اجزا کو زائل کر دو اور بعض کو باقی رہنے دو، جبکہ کھرچنے سے کپڑے میں جذب ہو جانے والے منی کے اجزا زائل نہیں ہوتے۔ چھوٹے بچے کے پیشاب اور مذی پر پانی چھڑکنا اور پتھروں سے استنجا کرنا اس سے مختلف چیز ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس موضوع پر بڑی خوبصورت بحث کی ہے، ان کی بحث کا خلاصہ یہ ہے: منی کو دھونے اور کھرچنے والی احادیث میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ ان میں جمع و تطبیق واضح طور پر ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ اگر منی کو پاک قرار دیا جائے تو صفائی کی خاطر دھونے کو استحباب پر محمول کیا جائے گا، نہ کہ وجوب پر، یہ امام شافعی، امام احمد اور محدثین کا طریق کار ہے اور اگر منی کو نجس سمجھ لیا جائے توتر منی کو دھویا جائے گا اور خشک کو کھرچا جائے گا، یہ احناف کا طریقہ ہے، پہلا طریقہ زیادہ راجح ہے، کیونکہ اس میں حدیث اور قیاس دونوں پر عمل کیا جا رہا ہے، اگر منی نجس ہوتی تو قیاس کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو دھونا واجب ہے اور کھرچنے پر اکتفا کرنا درست نہیں ہے، جیسا کہ خون وغیرہ کا مسئلہ ہے، احناف خون کے معاملے میں تو کھرچنے پر اکتفا نہیں کرتے، … …۔ اس معاملے میں سب سے واضح روایت صحیح ابن خزیمہ کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: ((اِنَّھَا کَانَتْ تَحُکُّہٗ مِنْ ثَوْبِہٖ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ وَھُوَ یُصَلِّیْ …)) سیدہ عائشہ ؓآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے کپڑے سے منی کھرچتی تھیں، اس حال میں کہ آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ یہ چیز ثابت نہیں ہے تو اس قسم کی حدیث تو کوئی نہیں ہے، جو منی کی نجاست پر دلالت کرے، جبکہ اس کو دھونا فعل ہے اور وہ وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ (فتح الباری: ۱/ ۴۴۱) اس بحث کے بعد ہمارا رجحان اول الذکر مسلک والوں کی طرف ہے کہ منی کا پانی پاک ہے اور کوئی دلیل اس کے ناپاک ہونے پر دلالت نہیں کرتی۔