Blog
Books
Search Hadith

اللہ کے راستہ کے شہداء کی اقسام اور ان کی نیتوں کے اعتبار سے ان کے درجات کا بیان

۔ (۴۸۹۷)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: تَقُوْلُوْنَ لِمَنْ قُتِلَ فِی مَغَازِیکُمْ، قُتِلَ فُلَانٌ شَہِیدًا، مَاتَ فُلَانٌ شَہِیدًا، وَلَعَلَّہُ أَنْ یَکُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِہِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِہِ ذَہَبًا وَفِضَّۃً یَبْتَغِی التِّجَارَۃَ، فَلَا تَقُولُوْا ذَاکُمْ، وَلٰکِنْ قُوْلُوْا کَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَہُوَ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند أحمد: ۳۴۰)

۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جو آدمی تمہاری ان جنگوں میں مارا جاتا ہے تو تم اس کے بارے میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہو گیا ہے، جبکہ ممکن ہے کہ اس نے تجارت کی خاطر اپنے چوپائے کی کمر پر یا سواری کے پہلوؤں پر سونا اور چاندی لاد رکھا ہو، لہذا کسی کے بارے میں یہ شہادت والی بات نہ کیا کرو، ہاں وہ بات کر سکتے ہو، جو محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کی ہے کہ جو آدمی اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا، وہ جنت میں جائے گا۔
Haidth Number: 4897
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۴۸۹۷) اسنادہ قوی، أخرجہ أبوداود: ۲۱۰۶، والنسائی: ۶/۱۱۷، والترمذی: ۱۱۱۴(انظر: ۳۴۰)

Wazahat

فوائد:… اصل بات یہ ہے کہ ظن غالب کی روشنی میں ہر عبادت گزار کو خاص قسم کے لقب سے نوازا جاتا ہے، مثلا نماز پڑھنے والے کو نمازی کہہ کر اس کو اچھے لفظوں میں یاد کرنا، حالانکہ اس چیز کا تو اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں اور اس کی نماز اس کے لیے باعث ِ رحمت ثابت ہوئی ہے یا باعث ِ عذاب، یہی معاملہ روزے، حج، زکوۃ، جہاد، بلکہ ہر نیکی کی یہی صورت حال ہے۔ اگر ہم کسی کو حاجی یا شہید کہتے ہیں تو ہم دراصل اپنے حسن ظن یا ظن غالب کی روشنی میں کہہ رہے ہوتے ہیں، حتمی فیصلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کرے گا۔