Blog
Books
Search Hadith

اس چیز کا بیان کہ سلب قاتل کا ہو گا اور اس میں سے خُمُس نہیں لیا جائے گا

۔ (۵۰۴۹)۔ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ، عَنْ أَبِیہِ جُبَیْرٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِیِّ، قَالَ: غَزَوْنَا غَزْوَۃً إِلٰی طَرَفِ الشَّامِ، فَأُمِّرَ عَلَیْنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ، قَالَ: فَانْضَمَّ إِلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَمْدَادِ حِمْیَرَ، فَأَوٰی إِلٰی رَحْلِنَا، لَیْسَ مَعَہُ شَیْئٌ إِلَّا سَیْفٌ، لَیْسَ مَعَہُ سِلَاحٌ غَیْرُہُ، فَنَحَرَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ جَزُورًا، فَلَمْ یَزَلْ یَحْتَلْ حَتَّی أَخَذَ مِنْ جِلْدِہِ کَہَیْئَۃِ الْمِجَنِّ حَتّٰی بَسَطَہُ عَلَی الْأَرْضِ ثُمَّ وَقَدَ عَلَیْہِ حَتّٰی جَفَّ، فَجَعَلَ لَہُ مُمْسِکًا کَہَیْئَۃِ التُّرْسِ، فَقُضِیَ أَنْ لَقِینَا عَدُوَّنَا فِیہِمْ أَخْلَاطٌ مِنْ الرُّومِ وَالْعَرَبِ مِنْ قُضَاعَۃَ فَقَاتَلُونَا قِتَالًا شَدِیدًا، وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الرُّومِ عَلٰی فَرَسٍ لَہُ أَشْقَرَ وَسَرْجٍ مُذَہَّبٍ وَمِنْطَقَۃٍ مُلَطَّخَۃٍ ذَہَبًا وَسَیْفٌ مِثْلُ ذٰلِکَ، فَجَعَلَ یَحْمِلُ عَلَی الْقَوْمِ، وَیُغْرِی بِہِمْ، فَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ الْمَدَدِیُّ یَحْتَالُ لِذٰلِکَ الرُّومِیِّ حَتّٰی مَرَّ بِہِ فَاسْتَقْفَاہُ فَضَرَبَ عُرْقُوبَ فَرَسِہِ بِالسَّیْفِ فَوَقَعَ، ثُمَّ أَتْبَعَہُ ضَرْبًا بِالسَّیْفِ حَتّٰی قَتَلَہُ، فَلَمَّا فَتَحَ اللّٰہُ الْفَتْحَ أَقْبَلَ یَسْأَلُ لِلسَّلَبِ، وَقَدْ شَہِدَ لَہُ النَّاسُ بِأَنَّہُ قَاتِلُہُ، فَأَعْطَاہُ خَالِدٌ بَعْضَ سَلَبِہِ وَأَمْسَکَ سَائِرَہُ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَی رَحْلِ عَوْفٍ ذَکَرَہُ، فَقَالَ لَہُ عَوْفٌ: ارْجِعْ إِلَیْہِ فَلْیُعْطِکَ مَا بَقِیَ، فَرَجَعَ إِلَیْہِ فَأَبٰی عَلَیْہِ، فَمَشٰی عَوْفٌ حَتّٰی أَتٰی خَالِدًا، فَقَالَ: أَمَا تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَضٰی بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَمَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَدْفَعَ إِلَیْہِ سَلَبَ قَتِیلِہِ؟ قَالَ خَالِدٌ: اسْتَکْثَرْتُہُ لَہُ، قَالَ عَوْفٌ: لَئِنْ رَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَأَذْکُرَنَّ ذٰلِکَ لَہُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ بَعَثَہُ عَوْفٌ فَاسْتَعْدٰی إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا خَالِدًا وَعَوْفٌ قَاعِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا یَمْنَعُکَ یَا خَالِدُ أَنْ تَدْفَعَ إِلٰی ہٰذَا سَلَبَ قَتِیلِہِ؟)) قَالَ: اسْتَکْثَرْتُہُ لَہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((ادْفَعْہُ إِلَیْہِ۔)) قَالَ: فَمَرَّ بِعَوْفٍ فَجَرَّ عَوْفٌ بِرِدَائِہِ، فَقَالَ: اَنْجَزْتُ لَکَ مَا ذَکَرْتُ لَکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَسَمِعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتُغْضِبَ فَقَالَ: ((لَا تُعْطِہِ یَا خَالِدُ! ہَلْ أَنْتُمْ تَارِکِی أُمَرَائِی، إِنَّمَا مَثَلُکُمْ وَمَثَلُہُمْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِیَ إِبِلًا أَوْ غَنَمًا، فَرَعَاہَا ثُمَّ تَخَیَّرَ سَقْیَہَا، فَأَوْرَدَہَا حَوْضًا، فَشَرَعَتْ فِیہِ فَشَرِبَتْ صَفْوَۃَ الْمَائِ، وَتَرَکَتْ کَدَرَہُ، فَصَفْوُہُ لَکُمْ وَکَدَرُہُ عَلَیْہِمْ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۴۸۷)

۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے شام کی طرف ایک غزوہ کیا، (یہ ۸ ؁ھ میں لڑا جانے والا غزوۂ موتہ تھا)، سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے امیر تھے، حمیر قبیلے کے اعوان و انصار میں سے ایک آدمی بھی ہمارے ساتھ مل گیا، وہ ہماری رہائش گاہ میں آگیا اور اس کے پاس صرف ایک تلوار تھی، اس کے علاوہ کوئی اور اسلحہ نہیں تھا، ایک مسلمان نے اونٹ نحر کیے، وہ آدمی حیلے بہانے کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے ان اونٹوں کے چمڑے سے ڈھال کی طرح کی ایک چیز بنائی، پھر اس کو زمین پر بچھایا اور اس پر آگ جلائی، یہاں تک کہ وہ خشک ہو گئی، پھر اس نے ڈھال کی طرح کا اس کو دستہ لگا دیا، پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ہمارا دشمنوں سے مقابلہ شروع ہو گیا، ہمارا دشمن رومیوں اور عرب کے بنو قضاعہ قبیلے کے افراد پر مشتمل تھا، انھوں نے ہم سے بڑی سخت لڑائی لڑی، رومیوں میں ایک جنگجو ایسا تھا کہ وہ سرخ رنگ کے گھوڑے پر سنہری زین رکھ کر اس پر سوار تھا، اس گھوڑے کا تنگ بھی سونے سے لت پت تھا اور اس کی تلوار بھی ایسے ہی سنہری تھی، اس نے مسلمانوں پر حملہ کرنا اور لڑائی کی آگ بھڑکانا شروع کی، حمیر قبیلے کا یہ آدمی اس رومی کے لیے حیلے بہانے کرنے لگا، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو یہ اس کے پیچھے چل پڑا، یہاں تک کہ اس کے گھوڑے کی پچھلی ٹانگ کا گھٹنا کاٹ دیا، پس وہ گھوڑا گر پڑا اور وہ شخص اس رومی پر تلوار کے ساتھ چڑھ دوڑا اور اس کوقتل کر دیا، جب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطا کر دی تو وہ شخص سلب کا سوال کرنے لگا، جبکہ لوگ اس کے حق میں یہ گواہی دے رہے تھے کہ واقعی اس نے اس کو قتل کیا ہے، لیکن سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو کچھ سامان دے دیا اور باقی روک لیا، پھر جب وہ سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رہائش گاہ کی طرف لوٹا اور ان کو یہ بات بتلائی تو انھوں نے کہا: تو سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف لوٹا جا، ان کو چاہیے کہ باقی حصہ بھی تجھے دے دیں، پس وہ لوٹ کر تو گیا، لیکن انھوں نے اس کو باقی حصہ دینے سے انکار کر دیا، پس سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود چل کر سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سلب کا فیصلہ قاتل کے حق میں کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی،کیوں نہیں، مجھے پتہ ہے، انھوں نے کہا: تو پھر تجھے اس کو اس کے مقتول کا سلب دینے سے کون سی چیز مانع ہے؟ سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: دراصل میں نے اس حصے کو بہت زیادہ سمجھا ہے (اور سارے کا سارا اس کو نہیں دیا)، سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ دیکھا تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ضرور ضرور بتلاؤں گا، پھر جب وہ مدینہ منورہ پہنچے تو سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس شخص کو بھیجا اور اس نے جا کر سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شکایت کی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مدد طلب کی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا، جبکہ سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خالد! کس چیز نے تجھے اس شخص کو اس کا سلب دینے سے روکا؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس سلب کو زیادہ سمجھا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اس کو دے دے۔ جب سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی چادر گھسیٹی اور کہا: میں نے جو بات تم کو کہی تھی، اب میں نے اس کو تیرے لیے پورا کر دیا ہے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کا یہ طعن سنا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غصے آ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خالد! تو اس کو نہ دے، کیا تم میرے امراء کو میرے لیے چھوڑنے والے ہو، میری اور میرے امراء کی مثال اس شخص کی سی ہے، جس کو اونٹ یا بکریاں چرانے کا کہا گیا، پس اس نے ان کو چرایا، پھر اس نے ان کو پانی پلانے کا وقت مقرر کیا اور ان کو حوض پر لے آیا، پس انھوں نے پانی پینا شروع کیا اور سارا صاف پانی پی گئے اور گدلا پانی رہ گیا، (ایسے سمجھو کہ) میرے امراء کا صاف پن تمہارے لیے ہے اور گدلا پن ان پر ہے۔
Haidth Number: 5049
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۰۴۹) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم، أخرجہ مختصرا مسلم: ۱۷۵۳ (انظر: ۲۳۹۸۷)

Wazahat

فوائد:… یہ غزوۂ موتہ کا واقعہ ہے، جو ۸ ؁ھ میں ہوا تھا۔