Blog
Books
Search Hadith

ایمان اور اسلام کی فضیلت کا بیان

۔ (۵۱)۔عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَیُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ وَ أَیُّ الْأَعْمَالِ خَیْرٌ؟ قَالَ: ((إِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ۔))، قَالَ: ثُمَّ أَیٌّ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ سَنَامُ الْعَمَلِ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَیٌّ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((حَجٌّ مَبْرُوْرٌ۔)) (مسند أحمد: ۷۸۵۰)

سیدنا ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے یہ سوال کیا گیا: کون سا عمل سب سے زیادہ فضلیت والا اور کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے بعد کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد ، جو کہ افضل اور اشرف عمل ہے۔ اس نے کہا: پھر کون سا، اے اللہ کے رسول!؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: حج مبرور۔
Haidth Number: 51
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۱) تخریج: اسنادہ حسن۔ أخرجہ الترمذی: ۱۶۵۸(انظر: ۷۸۶۳)

Wazahat

فوائد:… اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی ذات و صفات کو من و عن تسلیم کیا جائے اور صفات کے تقاضوں پر یقینِ کامل رکھا جائے‘ بطور مثال رزق دینا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور رزق کے لئے جائز اسباب و ذرائع استعمال کرنے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے‘ اب جو انسان حرام وسائل کے ذریعے رزق اکٹھا کرتا ہے یا حلال اسباب استعمال کرنے کے بعد کمی کے ڈر سے صدقہ نہیں کرتا یا نماز کے وقت دوکان بند کر کے نماز نہیں پڑھتا‘ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رزّاق ہونے کا تقاضا پورا نہیں کررہا‘ اور اسے اللہ تعالیٰ کی صفت رزق دینا پر مکمل اعتماد نہیں ہے‘ ایمان و ایقان صرف خیالی پلاؤ کا نام نہیں بلکہ اعمال کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ اللہ کے رسول پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حقانیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کے افعال و اقوال و تقریرات پر عمل کیا جائے۔ حج مبرور وہ ہے جس میں حاجی اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی نافرمانی سے محفوظ رہتا ہے،اسی طرح اللہ کی راہ میں جہادکرنا بڑی فضیلت والا عمل ہے۔