Blog
Books
Search Hadith

کافروں کے ساتھ جائز شرطوں اور مصالحت کی مدت وغیرہ کا بیان

۔ (۵۱۵۰)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ قُرَیْشًا صَالَحُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فِیہِمْ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِیٍّ: ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔)) فَقَالَ سُہَیْلٌ: أَمَّا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَلَا نَدْرِی مَا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ؟ وَلٰکِنْ اکْتُبْ مَا نَعْرِفُ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ، فَقَالَ: ((اکْتُبْ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ۔)) قَالَ: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ لَاتَّبَعْنَاکَ، وَلٰکِنْ اکْتُبْ اسْمَکَ وَاسْمَ أَبِیکَ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اکْتُبْ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) وَاشْتَرَطُوْا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ مَنْ جَائَ مِنْکُمْ لَمْ نَرُدَّہُ عَلَیْکُمْ، وَمَنْ جَائَ مِنَّا رَدَدْتُمُوہُ عَلَیْنَا، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتَکْتُبُ ہٰذَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ، إِنَّہُ مَنْ ذَہَبَ مِنَّا إِلَیْہِمْ فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ۔)) (مسند أحمد: ۱۳۸۶۳)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ قریشیوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مصالحت کی، ان میں سہیل بن عمرو بھی موجود تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ لکھو۔ سہیل نے کہا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ، ہم نہیںجانتے کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ کیا ہوتی ہے؟ وہ الفاظ لکھو، جو ہم جانتے ہیں، یعنی بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: لکھومحمد رسول اللہ کی جانب سے۔ لیکن (سہیل نے اس جملے پر بھی اعتراض کرتے ہوئے) کہا: اگر ہم یہ جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم نے آپ کی پیروی اختیار کر لینی تھی، آپ اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو محمد بن عبد اللہ کی طرف سے۔ قریشیوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ شرط لگائی کہ تم میں سے جو آدمی ہمارے پاس آ جائے، ہم اس کو واپس نہیں لوٹائیں گے، لیکن ہم میں سے جو آدمی تمہارے پاس آئے گا، تم اس کو ہماری طرف لوٹا دو گے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ یہ شق لکھیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، بیشک شان یہ ہے کہ ہم میں سے جو آدمی ان کی طرف چلا جائے گا، پس اللہ تعالیٰ اس کو دور کرے۔
Haidth Number: 5150
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۱۵۰) تخریج: أخرجہ مسلم: ۱۷۸۴(انظر: ۱۳۸۲۷)

Wazahat

فوائد:… شاید ہمارا سرسری فہم طبعی طور پر ان شرائط کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو، لیکن اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ ساری شروط اس بنا پر قبول کر لی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مطلع کر دیا تھا کہ ان میں اسلام اور اہل اسلام کے لیے خیر و بھلائی اور منفعت و مصلحت ہے، جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان شروط کے بارے میں شد ومد کے ساتھ استفسار کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: