Blog
Books
Search Hadith

غلاموں کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے حق میں وصیت کرنے کا اور ان کو مارنے سے ممانعت کا بیان

۔ (۵۲۳۴)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقْبَلَ مِنْ خَیْبَرَ وَمَعَہُ غُلَامَانِ، وَہَبَ أَحَدَہُمَا لِعَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، وَقَالَ: ((لَا تَضْرِبْہُ فَإِنِّی قَدْ نُہِیْتُ عَنْ ضَرْبِ أَہْلِ الصَّلَاۃِ، وَقَدْ رَأَیْتُہُ یُصَلِّی۔)) قَالَ عَفَّانُ فِی حَدِیثِہِ: أَخْبَرَنَا أَبُو طَالِبٍ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقْبَلَ مِنْ خَیْبَرَ وَمَعَہُ غُلَامَانِ، فَقَالَ عَلِیٌّ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخْدِمْنَا، قَالَ: ((خُذْ أَیَّہُمَا شِئْتَ)) قَالَ: خِرْ لِی، قَالَ: ((خُذْ ہٰذَا، وَلَا تَضْرِبْہُ فَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُہُ یُصَلِّی مَقْبَلَنَا مِنْ خَیْبَرَ، وَإِنِّی قَدْ نُہِیْتُ۔)) وَأَعْطٰی أَبَا ذَرٍّ غُلَامًا، وَقَالَ: ((اسْتَوْصِ بِہِ مَعْرُوفًا۔)) فَأَعْتَقَہُ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا فَعَلَ الْغُلَامُ؟)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَمَرْتَنِی أَنْ أَسْتَوْصِیَ بِہِ مَعْرُوفًا فَأَعْتَقْتُہُ۔ (مسند أحمد: ۲۲۵۰۶)

۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر سے واپس آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دو غلام تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک غلام سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیا اور فرمایا: اس کو مارنا نہیں، کیونکہ مجھے نمازی لوگوں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے اور میں نے اس کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ عفان راوی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر سے واپس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دو غلام تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں بھی خادم دے دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں جو چاہتے ہو، لے لو۔ لیکن سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ میرے لیے پسند کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لے لو، کیونکہ میں نے اس کو خیبر سے واپسی پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھاہے اور مجھے نمازی لوگوں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسر اغلام سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیا اور فرمایا: اس کے حق میں اچھی وصیت قبول کرنا۔ انھوں نے اس کو آزاد کر دیا، پھر جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا کہ غلام کا کیا بنا؟ تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں اس کے حق میں نیک وصیت قبول کروں، پس اس وجہ سے میں نے اس کو آزاد کر دیا۔
Haidth Number: 5234
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۲۳۴) تخریج: اسنادہ ضعیف من اجل ابی غالب البصری، فقد اختلف فیہ، وھو ممن یعتبر بہ فی المتابعات والشواھد، أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۸۰۵۷(انظر: ۲۲۱۵۴)

Wazahat

فوائد:… اسلام نے عدل و انصاف اور اخوت و مساوات پر حد درجہ زور دیا ہے اور احترامِ انسانیت کا سب سے زیادہ خیال رکھا ہے۔ اگر ظاہری حقوق کا اعتبار کریں تو غلام معاشرے کے سب سے کم مرتبے والے لوگ ہیں، لیکن اسلام نے ان کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی وضاحت کر دی کہ یہ سلوک اس طرح کیا جائے کہ مالکان جو خود کھائیں اور پہنیں، وہی اپنے غلاموں کو کھلائیں اور پہنائیں، ان کے معاملے میں عفو و درگذر کے پہلو کو وسیع رکھیں اور ان کی مجبوری و ماتحتی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، کیونکہ وہ دین اور انسان ہونے کی حیثیت سے اپنے آقاؤں کے بھائی ہیں۔