Blog
Books
Search Hadith

ان جامع دعاؤں کا بیان کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے بعض صحابہ کو جن کی تعلیم دیا کرتے تھے

۔ (۵۶۶۲۔) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنْ أَبِیہِ الْعَبَّاسِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا عَمُّکَ کَبِرَتْ سِنِّی، وَاقْتَرَبَ أَجَلِی، فَعَلِّمْنِی شَیْئًا یَنْفَعُنِی اللّٰہُ بِہِ، قَالَ: ((یَا عَبَّاسُ! أَنْتَ عَمِّی وَلَا أُغْنِی عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا، وَلٰکِنْ سَلْ رَبَّکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) قَالَہَا ثَلَاثًا ثُمَّ أَتَاہُ عِنْدَ قَرْنِ الْحَوْلِ فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ (مسند أحمد: ۱۷۶۶)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اپنے باپ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کا چچا ہوں، اب میں عمر رسیدہ ہو گیا ہوں اور میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے، لہذا آپ مجھے ایسی چیز کی تعلیم دیں کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عباس! تم میرے چچے تو ہو، لیکن میں تم کو اللہ تعالیٰ سے کفایت نہیں کر سکتا، البتہ تم اپنے ربّ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کیا کرو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار یہ بات دوہرائی، پھر جب وہ سال کے آخر میں آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر یہی بات کی۔
Haidth Number: 5662
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۶۶۲) تخریج: حسن لغیرہ (انظر: ۱۷۶۶)

Wazahat

فوائد:… سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا تھے، لیکن آخرت کے معاملے میں اتنا مقدس رشتہ بھی کسی کام نہیں آئے گا، وہاں معاملہ ذاتی نیکیوں اور برائیوں کا ہو گا۔ معافی سے مراد گناہوں کا معاف ہو جانا ہے اور عافیت سے مراد بیماریوں، آزمائشوں اور ضعف ِ ایمان سے سلامتی ہے۔