Blog
Books
Search Hadith

ذرائع آمدنی کے ابواب کسب مال کی رغبت دلانے، پست ہمتی سے گریزکرنے، نیز حلال کی ترغیب اور حرام سے نفرت دلانے کا بیان

۔ (۵۷۲۵)۔ عَنْ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍیَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَوْمَأَ بِاِصْبَعَیْہِ إِلٰی أُذُنَیْہِ: ((إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَالْحَرَامَ بَیِّنٌ، وَاِنَّ بَیْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُشْتَبِہَاتٍ لَایَدْرِیْ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ أَ مِنَ الْحَلَالِ ھِیَ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ، فَمَنْ تَرَکَہَا اِسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہِ وَعِرْضِہِ، وَمَنْ وَاقَعَہَا یُوْشِکُ أَنْ یُوَاقِعَ الْحَرَامَ، فمَنْ رَعٰی إِلٰی جَنْبِ حِمًییُوْشِکُ اَنْ یَرْتَعَ فِیْہِ، وَلِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی، وَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہُ، وَإِنَّ فِی الْإنْسَانِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہُ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہُ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۵۵۸)

۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ساتھ ہی انھوں نے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا: بیشک حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، لیکن حلال و حرام کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں، بہت سارے لوگ ان کے بارے میں نا آشنا ہیں کہ آیا وہ حلا ل ہیںیا وہ حرام، جس نے ان امور کو ترک کر دیا اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کرلی اور جوان میں گھس گیا، قریب ہے کہ وہ حرام میں واقع ہوجائے گا، اس کی مثال یہ ہے کہ اگر ایک آدمی کسی کی چراگاہ کے نزدیک جانور چر ائے گا تو ممکن ہے کہ وہ اس میں منہ ماری بھی کردیں، ہر بادشاہ کا ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چیزیں اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں، انسان میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے، اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہوجاتاہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، خبردار! وہ دل ہے۔
Haidth Number: 5725
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۷۲۵) تخریج: أخرجہ البخاری: ۲۰۵۱، ومسلم: ۱۵۹۹(انظر: ۱۸۳۶۸)

Wazahat

فوائد:…قرآن و حدیث کی روشنی میں حلال اور حرام امور بالکل واضح ہیں، البتہ بیچ میں کچھ ایسے امور ہیں کہ واضح طور پر جن کی حلت یا حرمت کا فیصلہ نہیں کیا سکتاہے، ان ہی کو مشتبہ امور کہتے ہیں، اس حدیث مبارکہ کا تقاضا یہ ہے کہ ان امور سے بھی اجتناب کیا جائے، تاکہ آدمی حرام کاموں سے مکمل طور پر محفوظ رہے، جو آدمی ان شبہات سے بچے گا، وہ اللہ تعالی کے ہاں اجر پائے گا اور جو ان کے لیے جواز پیدا کرے گا، وہ نادم ہو گا اور فضائل سے محروم رہے گا۔ دیکھیں حدیث نمبر (۶۲۰۴)، اس حدیث میں ایک مشتبہ چیز کا بیان ہے۔ رسول اللہ a نے راستے میں پڑی ہوئی کھجور کے بارے میں فرمایا: ’’اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی ہو سکتی ہے تو میں اسے کھا لیتا۔‘‘ (صحیح بخاری: ۲۰۵۵) حدیث ِ مبارکہ کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی اصلاح کا دارومدار دل پر ہے، لہذا دل کو پر خلوص رکھا جائے اور اصلاح کی کوشش کی جائے۔