Blog
Books
Search Hadith

تجارت میں نرمی اختیار کرنے اور دررگزر کرنے، سودا واپس کرنے اور اچھا معاملہ کرنے اور اس کی فضیلت کا بیان

۔ (۵۷۹۵)۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((إِنَّ رَجُلًا لَمْ یَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ فَکَانَ یُدَایِنُ النَّاسَ فَیَقُوْلُ لِرَسُوْلِہِ: خُذْ مَا تَیَسَّرَ وَاتْرُکْ مَا عَسُرَ وَتَجَاوَزْ لَعَلَّ اللّٰہَ یَتَجَاوَزُ عَنَّا، فَلَمَّا ھَلَکَ قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَہُ: ھَلْ عَمِلْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ قَالَ: لَا، اِلَّا أَنَّہُ کَانَ لِیْ غُلَامٌ وَکُنْتُ أُدَایِنُ النَّاسَ فَاِذَا بَعَثْتُہُ یَتَقَاضٰی قُلْتُ لَہُ: خُذْ ماَ تَیَسَّرَ وَاتْرُکْ مَا عَسُرَ وَ تَجَاوَزَ لَعَلَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَتَجَاوَزُ عَنَّا، قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَ جَلَّ: تَجَاوَزْتُ عَنْکَ۔)) (مسند احمد: ۸۷۱۵)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، ایک آدمی نے کبھی کوئی نیکی نہ کی تھی، تاہم وہ لوگوں کے ساتھ تجارتی لین دین رکھتاتھا اس نے اپنے نائب سے کہہ رکھا تھا جوآسانی سے دے سکے اس سے قیمت لے لینا اور جو تنگدست ہواس سے درگزر کرنا، شاید اللہ تعالیٰ ہمیں بھی معاف کردے، جب وہ فوت ہواتو اللہ تعالی نے اس سے پوچھاکبھی کوئی عمل خیر کیاہے، اس نے کہا نہیں ایک کام ہے کہ میں لوگوں سے لین دین کرتا تھا تو میںجب اپنے نائب کو قر ضہ کے تقاضا کے لئے بھیجتاتواس سے کہہ رکھا تھا کہ جو آسان دست ہو اس سے لے لینا اور جو تنگدست ہو اس سے درگزر کرنا شاید اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جامیں نے بھی تجھے معاف کردیا۔
Haidth Number: 5795
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۷۹۵) تخریج: أخرجہ البخاری: ۳۴۸۰، ومسلم: ۱۵۶۲ (انظر: ۸۷۳۰)

Wazahat

فوائد:… ان احادیث ِ مبارکہ میں جن جن مواقع پر نرم خوئی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس وقت ہر تاجر، دوکاندار، قرض خواہ اور حقدار اس نرمی کی رعایت کرنے سے یکسر محروم ہے، الا ما شاء اللہ، ممکن ہے کہ کوئی رعایت کرنے والا ہو، لیکن عوام نے اس کو نہیں دیکھا، ہر قرض خواہ اور قرض دار کے مابین سختی اور تلخی کا معاملہ نظر آتا ہے، اس وجہ سے ہمارے مزاجوں میں تناؤ آ گیا ہے اور ہماری زندگیاں برکتوں سے خالی ہو گئی ہیں۔ قارئین کرام! کچھ افراد تو طبعی طور پر نرم ہوتے ہیں، اگر وہ کچھ سعی کریں تو ان کا مزاج آسانی سے شریعت کے تابع ہو سکتا ہے، لیکن سخت مزاج لوگوں کو شریعت کے مطابق نرم خوئی سے متصف ہونے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑے گی اور اس قسم کے ہر معاملے میں تکلف کر کے اپنے مزاج کو شریعت کے تابع کرنا ہو گا، نتیجتاً نہ قرضے لیٹ ہو جانے سے بے سکونی ہو گی اور نہ معاف کرنے سے معاملات رکیں گے، ایسے افراد کو یہ عقیدہ مضبوط کر لینا چاہیے کہ روزی کے اسباب کا مالک اللہ تعالی ہے، ہم خود نہیں ہیں۔