Blog
Books
Search Hadith

بیع عینہ، ایک سودے میں دو سودوں اور بیع عربون سے ممانعت کا بیان

۔ (۵۸۷۳)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ وَعَنْ بَیْعٍ وَسَلَفٍ وَعَنْ رِبْحِ مَالَمْ یُضْمَنْ وَعَنْ بَیْعِ مَالَیْسَ عِنْدَکَ۔ (مسند احمد: ۶۶۲۸)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بیع میں دو بیعیں کرنے سے، بیع اور ادھار کرنے سے،آدمی جس چیز کا ضامن نہ ہو، اس کے نفع سے اور جو چیز ملکیت میں نہ ہو، اس کی بیع کرنے سے منع فرمایاہے۔
Haidth Number: 5873
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۸۷۳) تخریج: اسنادہ حسن۔ أخرجہ النسائی: ۷/ ۲۹۵(انظر: ۶۶۲۸)

Wazahat

فوائد:… حدیث ِ مبارکہ میں مذکورہ چاروں اصطلاحات کا مفہوم: (بَیْعتَیْنِ فِیْ بَیْعٍ: ایک بیع میں دو بیعوں) سے منع کیا گیا ہے، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور سیدنا عبد اللہ بن عمر e سے مروی ہیں۔ اس حدیث کے راویوں نے اس اصطلاح کی وہی تعریف کی ہے جو (شَرْطَیْنِ فِیْ ، … ایک سودے میں دو شرطیں)کی کی گئی ہے۔ جیسے سیدنا عبد اللہ بن مسعود کی حدیث میں سماک بن حرب نے اور سیدنا ابوہریرہb کی حدیث میں عبد الوھاب بن عطا نے کہا: (بَیْعتَیْنِ فِیْ بَیْع: ایک بیع میں دو بیعیں)کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی آدمی کہے: میں تجھے یہ چیزفروخت کروں گا، ایک ماہ کے بعد ادائیگی کی صورت میں قیمت اتنی ہو گی اور دو مہینوں کی صورت میں اتنی۔ (اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے کہ یہ جائز ہے یا ناجائز۔ ) (بَیْعٌ وَ سَلَفٌ، … ایک ہی معاملہ میں بیع بھی اور قرض بھی): ابن اثیر نے اس کا معنی بیان کرتے ہوئے کہا: اس کا مفہوم یہ ہے جیسے کوئی آدمی کہے: میں تجھے یہ غلام ایک ہزار کا فروخت کروں گا، بشرطیکہ تو مجھے فلاں سامان میں بیع سلم کرے یا ایک ہزار ادھار دے۔ ایسی صورت میں قرض دینے کا مقصد یہ ہو گا کہ قرضہ لینے والا اس کے بدلے قیمت میں نرمی برتے گا، جس کی حد نا معلوم ہو جاتی ہے اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ منفعت کا سبب بننے والا قرض سود ہوتا ہے۔ بیع سلم: قیمت پیشگی ادا کر کے مَبِیع (چیز) ایک معین مدت کے بعد وصول کی جائے۔ (وَرِبْحِ مَا لَمْ یُضْمَنْ):… ایسی چیز کا نفع جس کے نقصان کا آدمی ضامن نہیں بن سکتا) : امام خطابی نے کہا: اس کی صورت یہ ہے کہ عرفان نے فاروق سے سامان خریدا اور قبضے میں لینے سے پہلے ابراہیم کو فروخت کر دیا۔ ایسی صورت میں اس مال کا ضامن پہلا بائع یعنی فاروق ہو گا۔ جب تک عرفان یہ سامان اپنے قبضے میں لے کر اس کا ضامن نہ بن جائے، اس وقت تک اس کو آگے فروخت کرنا منع ہے۔ (وَبَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَکَْ، … ایسی چیز کی بیع جو تیرے پاس نہیں ہے) : امام خطابی نے کہا: اس سے مراد بیع العین ہے، نہ کہ بیع الصفہ۔ آپ خود غور کریں کہ بیع سلم کو مدتوں تک جائز قرار دیا ہے، حالانکہ اس میں بیچنے والا ایسی چیز فروخت کر رہا ہوتا ہے جو معاہدے کے وقت اس کے پاس نہیں ہوتی،یہ بیع الصفہ ہے۔ ٓپa نے منع کیا کہ جو چیز بائع کے پاس نہیں ہے، وہ اس کا سودا نہ کرے، اس کی وجہ دھوکہ اور غرر ہے، مثلا بھاگا ہوئے غلام یا آوارہ اور بھاگے ہوئے اونٹ کا سودا کرنا، یہ بیع العین ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ عمومی لحاظ سے اسی چیز کا سودا کرنا منع ہے، جو آدمی کے پاس نہ ہو، لیکن بیع سلم کی شکل جائز ہے، کیونکہ اس کے جواز کی صراحت موجود ہے، جیسے بیع مزابنہ سے بیع عرایا مستثنی ہے۔ (عبد اللہ رفیق)