Blog
Books
Search Hadith

قافلوںکوملنے اور شہری کا دیہاتی کے لئے تجارت کرنے کی ممانعت کا بیان

۔ (۵۹۰۱)۔ عَنْ طَاؤُوْسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُتَلَقَّی الرُّکْبَانُ وَأَنْ یَبِیْعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، قَالَ: قُلْتُ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ: مَاقَوْلُہُ حَاضِرٌ لِبَادٍ، قَالَ: لَایَکُوْنُ سِمْسَارًا۔ (مسند احمد: ۳۴۸۲)

۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ قافلوں کو (آگے جا کر) ملا جائے اور یہ کہ شہری، دیہاتی کا سامان فروخت کرے۔ طاؤس کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا اس کا مفہوم کیا ہے کہ شہری، دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرے؟ انھوں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کا دلّال نہ بنے۔
Haidth Number: 5901
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۹۰۱) تخریج: أخرجہ البخاری: ۲۱۵۸، ۲۲۷۴، ومسلم: ۱۵۲۱(انظر: ۳۴۸۲)

Wazahat

فوائد:… اس باب میں دو امور کا ذکر ہے: سامان تجارت لانے والے قافلوں کو منڈی اور مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر نہ ملا جائے، کیونکہ ممکن ہے کہ خریدار بھاؤ کے بارے میں کوئی غلط بیانی کر کے سستے داموں ان سے سامان خرید لے، یہ دھوکہ دہی اور ضرر رسانی ہو گی۔ اگر کوئی آدمی کسی قافلے سے سامان خرید لیتا ہے تو جب مالک مارکیٹ میں پہنچیں گے، ان کو خریدار سے اپنا سامان واپس لے لینے کا اختیار ہو گا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ شہری، دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرے، اس موضوع پر دلالت کرنے والی کئی احادیث موجود ہیں۔ جیسا کہ سیدنا انس b کہتے ہیں: نُھِیْنَا اَنْ یَّبِیْعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَاِنْ کَانَ أَخَاہُ لِأَبِیْہِ وَأُمِّہِ … ’’ہمیں منع کیا گیا کہ کوئی شہری دیہاتی کا سامان فروخت کرے، اگرچہ وہ اس کا سگا بھائی ہو۔‘‘ (بخاری: ۲۱۶۱، مسلم: ۱۵۲۳، واللفظ لہ) اس معاملے میں شہری عوام اور دیہاتی تاجر دونوں کا تحفظ مقصود ہے، بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ شہری لوگ دیہاتی تاجروں سے سستے داموں مال خرید لیتے ہیں، جس کا نقصان دیہاتیوں کو ہوتا ہے اور شہری دلالوں کی وجہ سے شہری عوام کو وہ سودا مہنگا خریدنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت یہ سہولت مہیا کرے کہ شہری عوام براہِ راست دیہاتی لوگوں سے ان کامال خرید سکے تو اس میں دونوں کا فائدہ ہو گا اور اس طریقے سے شاید مہنگائی کا عفریت بھی ماند پڑ جائے۔ قارئین کرام! پاکستان ایک زرعی ملک ہے، لیکن۲۰۰۸ ء اور ۲۰۰۹ ء میں گندم کی کٹائی کے چند دنوں کے بعد شہری عوام گندم کے بحران میں کیوں مبتلا ہو گئے؟ اگر شریعت کے تجارتی قوانین پر عمل کیا جاتا اور زمینداروں کو شہروں میں گندم پہنچانے کے لیے مراکز مہیا کر کے شہری لوگوں کو ان سے گندم خریدنے کا موقع فراہم کیا جاتا تو ذخیرہ اندوزوں کے چہرے خود بخود ماند پڑ جاتے اور عوام کو بھی مہنگائی کے عذاب سے نجات مل جاتی۔ اس معاملے میں قصور وار دلال، آڑھتی اور ذخیرہ اندوز لوگ ہیں،یہ لوگ نہ زمینداروں کو وقت پر ادائیگی کرتے ہیں اور نہ عوام کی ضرورت کے وقت مال کو مارکیٹ میں لاتے ہیں۔ قطعی طور پر شریعت کا ہدف یہ نہیں ہے کہ چند لوگوں کے منافع کی وجہ سے ساری عوام مہنگائی میں مبتلا ہو جائے، اس باب کی حدیث کی مخالفت کی وجہ سے چند دلّال اور ذخیرہ اندوز قسم کے لوگ اربوں روپیہ کما لیتے ہیں، لیکن عوام دو کلو آٹا اور ایک کلو چاول کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ سچ فرمایا فلاحِ انسانیت کے خیرخواہ محمد رسول اللہ a نے کہ ((لَایَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ دَعُوْا لنَّاسَ یَرْزُقِ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ مِنْ بَعْضٍ۔)) (مسلم: ۱۵۲۲) … ’’کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے بیع نہ کرے، لوگوں کو چھوڑ دو (اور ان کو آپس میں معاملات طے کرنے دو)، اللہ تعالی بعض کو بعض سے رزق دیتا ہے۔‘‘ سیدنا جابر b نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ شہریوں کی بہ نسبت زمینداروں کے دلوں میں وسعت زیادہ ہوتی ہے، وہ سبزی وغیرہ کی معمولی مقدار کے پیسے ہی وصول نہیں کرتے اور ان کے ہاں سبز دھنیا اور سبز مرچ جیسے ایٹموں کی سرے سے کوئی قیمت وصول ہی نہیں کی جاتی،اسی طرح دوسری سبزیاں بھی ان لوگو ں کے ہاں ارزاں قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں۔ لیکن دلالی اور آڑھتی نظام کی وجہ سے سبزی فروش کو یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ آج سبز دھنیا دس روپے سے کم نہیں ملے گا اور ایک کلو مولی پچاس روپے کی اور اور ایک کلو شلغم اسی (۸۰) روپے کے ملیں گے۔ زمیندار کو یہ شکوہ ہے کہ اس کی پیداوار کا ریٹ صحیح نہیں لگ رہا اور فصل پر کیے گئے اس کے اخراجات پورے ہی نہیں ہو رہے، جبکہ شہری عوام کو خورد و نوش کی اشیا کی کمی کا زبر دست سامنا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے؟ گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ اپنے عوام میں شرعی ماحول کو فروغ دے اور ملک کی تجارت کو شریعت کے مرتب کردہ تجارتی قوانین کے سانچے میں ڈھالے اور ذخیرہ اندوزوں کی زبردست حوصلہ شکنی کرے۔