Blog
Books
Search Hadith

غلام کی تجارت کا اور محرم غلاموں کے مابین تفریق ڈالنے کی ممانعت کا بیان

۔ (۵۹۱۲)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: أَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ اَبِیْعَ غُلَامَیْنِ أَخَوَیْنِ فَبِعْتُہُمَا فَفَرَّقْتُ بَیْنَہُمَا فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَدْرِکْہُمَا فَأَرْجِعْہُمَا وَلَا تَبِعْہُمَا اِلَّا جَمِیْعًا۔)) (مسند احمد: ۱۰۴۵)

۔ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دو غلاموں کو بیچنے کا حکم دیا، وہ دو آپس میں بھائی تھے، میں نے ان کو بیچ تو دیا، لیکن ان کے درمیان تفریق کر دی اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو پا اور ان کو لوٹا اور ان کو فروخت نہ کر مگر اکٹھا۔
Haidth Number: 5912
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۹۱۲) حسن لغیرہ۔ أخرجہ البیھقی: ۹/ ۱۲۷، والبزار: ۹۲۴، والدارقطنی: ۳/ ۶۵ (انظر: ۱۰۴۵)

Wazahat

فوائد:… سیدنا علیbسے مروی ہے کہ انھوں نے ایک لونڈی اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈال دی، نبی کریمa انہیں اس سے روک دیا اور بیع کو ردّ کر دیا۔ (ابوداود: ۲۶۹۶) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ لونڈی اور اس کی اولاد کے درمیان اور بہن بھائیوں کے درمیان جدائی ڈالنا درست نہیں ہے، خواہ بیع کے ذریعے ہو یا ہبہ وغیرہ کے ذریعے، باپ کو ماں پر قیاس کیا جائے گا۔ اہل علم کا اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ چھوٹے بچے اور اس کی ماں میں جدائی ڈالنا درست نہیں ہے۔ درج ذیل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بچہ یا بچی بالغ ہو جائے تو جدائی ڈالنا درست ہے: سیدنا سلمہ bسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا ابو بکر bکے ساتھ غزوۂ فزارہ کے لیے نکلے، آپ a نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا، ہم نے ہر طرف سے دشمنوں پر حملہ کیا، میں نے دشمنوں میں سے لوگوں کی ایک جماعت دیکھی، اس میں بچے اور عورتیں بھی تھے، میں نے ان پر تیرچلائے اور وہ کھڑے ہو گئے، پھر میں ان کو لے کر سیدنا ابو بکر b کے پاس آیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک خاتون تھی، اس نے خشک چمڑے کا لباس پہنا ہوا تھا، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی، جو عربوں میں حسین ترین تھی، سیدنا ابو بکر b نے وہ مجھے دے دی، جب میں مدینہ منورہ آیا تو رسول اللہ a مجھے ملے اور فرمایا: ’’یَا سَلَمَۃُ! ھَبْ لِیَ الْمَرْأَۃَ۔‘‘ … ’’اے سلمہ! وہ خاتون مجھے ہبہ کر دو۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کی قسم! وہ مجھے بہت پسند ہے، لیکن ابھی تک میں نے اس کا کپڑا نہیں اٹھایا، آپ a خاموش ہو گئے، دوسرے دن آپ a سے میری ملاقات بازار میں ہوئی، آپ a نے پھر وہی بات ارشاد فرمائی، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کا کپڑا تک نہیں اٹھایا اور اب وہ آپ کے لیے ہے، پھر آپ a نے اس خاتون کو مکہ والوں کی طرف بھیج دیا اور ان کے ہاتھوں میں جو مسلمان قیدی تھے، اس عورت کو ان کے فدیے میں دے دیا۔ (صحیح مسلم: ۱۷۵۵، ابوداود: ۲۶۹۷) سیدنا ابو بکر b نے اس ماں بیٹی کے درمیان جدائی ڈال دی تھی اور رسول اللہ a نے ان کو برقرار رکھا، جبکہ یہ بیٹی بالغ تھی۔ امام ابو داود نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا: باب الرخصۃ فی المدرکینیفرق بینھم (بالغ غلاموں میں تفریق ڈال دینے کی رخصت کا بیان)