Blog
Books
Search Hadith

سود کے ابواب سود کے بارے میں سختی کا بیان

۔ (۵۹۶۲)۔ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((رَأَیْتُ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِیْ رَجُلًا یَسْبَحُ فِیْ نَہْرٍ وَیُلْقَمُ الْحِجَارَۃَ، فَسَئَلْتُ مَاھٰذَا؟ فَقِیْلَ لِیْ: آکِلُ الرِّباَ۔)) (مسند احمد: ۳۰۳۶۱)

۔ سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی، میں نے ایک آدمی دیکھا، وہ ایک نہر میں تیررہا تھا اور اس کے منہ میںپتھر پھینکے جارہے تھے، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے ، مجھے کہا گیا کہ یہ سود خور ہے۔
Haidth Number: 5962
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۹۶۲) تخریج: حدیث صحیح۔ أخرجہ البیھقی فی ’’الشعب‘‘: ۵۵۰۹، وھو حدیث طویل ، فیہ قصۃ المعراج أخرجہ البخاری: ۱۱۴۳، ۳۳۵۴، ۴۶۷۴، ۷۰۴۷ (انظر: ۲۰۱۰۱)

Wazahat

فوائد:… سود حرام ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اللہ a نے اپنے ارشادات میں اس کی بہت زیادہ مذمت کی ہے، سود کی سنگینی پر دلالت کرنے والے مزید تین دلائل ملاحظہ کریں: ارشادِ باری تعالی ہے: {فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔} (سورۂبقرہ: ۲۷۹) … ’’اگر تم (سود والے معاملے پر عمل کرنے سے) باز نہ آئے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کا اعلان سن لو۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن حنظلہ راہب b سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ((دِرْھَمُ رِبًایَأْکُلُہُ الرَّجُلُ وَھُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلَاثِیْنَ زَنْیَۃً۔)) … ’’جو آدمی دانستہ طور پر ایک درہم سود کھاتا ہے، اللہ تعالی کے ہاں(اس کا یہ جرم) چھتیس دفعہ زنا کرنے سے سنگین ہے۔‘‘ (معجم اوسط طبرانی: ۱/ ۱۴۲، دارقطنی: ۲۹۵، صحیحہ :۱۰۳۳) سیدنا براء بن عازب b بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ((اَلرِّبَا اثْنَانِ وَسَبْعُوْنَ بَاباً، أَدْنَاھٰا مِثْلُ إِتْیَانِ الرَّجُلِ أُمَّہُ، وَإِنَّ أَرْبَا الرِّبَا اسْتِطَالَۃُ الرَّجُلِ فِی عِرْضِ أَخِیْہِ۔)) … ’’سود کے ستر درجے ہیں، سب سے کم درجے (کا گناہ) اپنی ماں سے منہ کالا کرنے کے برابر ہے اور سب سے بڑا سود یعنی زیادتییہ ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی عزت پر دست درازی کرے۔‘‘ (معجم اوسط طبرانی: ۱/ ۱۴۳/ ۱، صحیحہ: ۱۸۷۱) اگر عوام اور ان کی صورتحال اور بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کے معاملات کو دیکھا جائے تو بہت مشکل ہو چکا ہے کہ سود کو سمجھا جائے اور اس سے بچا جائے، جبکہ سب سے زیادہ حرص اور لالچ ان بینکوں اور کمپنیوں کے مالکوں میں پائی جاتی ہے اور وہ لوگوں کا روپیہ پیسہ بٹورنے کے لیے چہار اطراف سے ان پر حملہ آور ہو چکے ہیں اور آئے دن ایسے ایسے پرکشش نام پیش کر رہے ہیں کہ لوگ جن کی آڑ میں آ کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نیک کام کر رہے ہیں، جبکہ وہ حقیقت سود یا جوے کی کوئی نہ کوئی صورت ہوتی ہے، ایک انشورنس کمپنی سے جب ہماری بات ہوئی تو وہ واضح طور پر جوے والے معاملات کو سیدنا عمر bکے ایک فیصلے کی روشنی میں درست ثابت کرنا چاہتے تھے، جبکہ اس معاملے اور فاروقی عدالت Qمعاملات کو سیدنا عمر bکے ایک فیصلے کی روشنی میں درست ثابت کرنا چاہتے تھے، جبکہ اس معاملے اور فاروقی عدالت کے ما بین کوئی ایک شق بھی مشترک نہیں تھی۔ سود کی تعریف: لغوی تعریف: سود کو عربی زبان میں ’’رِبًا‘‘ کہتے ہیں،یہ لفظ باب رَبٰییَرْبُوْ کا مصدر ہے، جس کے معانی زیادتی اور سود کے ہیں۔ اصطلاحاً اس کی دو اقسام ہیں: (۱) رِبَاالْفَضْل: خرید و فروخت میں ایک جنس کے تبادلہ کے وقت ایک طرف سے زیادہ مقدار حاصل کرنا یا مقدار برابر ہونے کی صورت میں ایک طرف سے ادھار ہونا ، اگلے باب میں سود کی اسی قسم کابیان ہے۔ آجکل صرافہ بازاروں میں سونے کی خرید و فروخت کے وقت سود کی اسی قسم کو اپنایا جاتا ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ تقریباً تمام سنار سود خور ہیں الا ماشاء اللہ، اکثر یہ دیکھا کہ ایک طرف سے سونا نقد ہوتا ہے اور دوسری طرف سے ادھار اور اس کی مقدار میں بھی فرق ہوتا ہے،یہ سود کی واضح ترین قسم ہے، جو لوگ نقدی کے عوض سونا خریدتے ہیں، ان کو بھی اس معاملے میں ادھار پر خریدنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، کیونکہ ہمارا روپیہ پیسہ بھی سونے اور چاندی کا عوض ہے، جبکہ سونے کے تاجر اپنے گاہکوں کو ادھار کی سہولت بھی دیتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں شادی کے موقع پر دولہا کے لیے نوٹوں کے جو ہار استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی خریداری بھی غور طلب معاملہ ہے، کیونکہ جس ہار میں (۵۰۰) روپے ہوتے ہیں، وہ تقریباً (۶۵۰، ۷۰۰) روپے میں فروخت ہوتا ہے، جبکہ اس پر نوٹوں کے علاوہ جوکچھ لگا ہوتا ہے، وہ قطعی طور پر اتنی زائد قیمت کا نہیں ہوتا، لہذا کہناپڑے گا کہ کم روپیوں کے بدلے زیادہ روپے وصول کیے جاتے ہیں اور یہ بھی سودی معاملہ ہے۔ (۲) رِبَا النَّسِیْئَۃ: ایک جیسی دو متبادل چیزوں میں سے کسی ایک کا زیادہ معاوضہ لینا، مگر ایک مقررہ مدت کے بعد۔ جیسے میمون نے قاسم کو بیس دنوں کے لیے ایک ہزار روپے ادھار دیے، شرعی قانون کے مطابق اتنی رقم ہی واپس لینی چاہیے، لیکن اس نے بیس دنوں کے عوض ایک ہزار سے زیادہ رقم وصول کی۔ بینک سے قرضہ لینے والے اور بینک میں رقم جمع کروانے والوں کا سود اسی قسم کا ہوتا ہے۔ جو لوگ اس قسم کے لین دین کو جائز سمجھتے ہیں، ان سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ شریعت میں جس سود کو حرام کو قرار دیا گیا ہے، اس کی تعریف کیا ہے اور آیا موجودہ دور میں اس کی کوئی شکل پائی جاتی ہے؟ یہ سود کا اجمالی تعارف ہے، اگلے ابواب میں مزید وضاحت کی جائے گی۔