Blog
Books
Search Hadith

نقد و نقد سودا ہونے کی صورت میں ایک جنس میں تفاضل کے جواز کے قائلین کی دلیل

۔ (۵۹۸۳)۔ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ ((لَا رِبَا اِلَّا فِی النَّسِیْئَۃِ))(مسند احمد:۲۲۱۰۵)

۔ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سود نہیں ہے، مگر ادھار میں۔
Haidth Number: 5983
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۵۹۸۳) تخریج: انظر الحدیث السابق

Wazahat

فوائد:… سیدنا اسامہ bکی حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک جنس کے تبادلہ کے وقت ایک طرف سے زیادتییا کمی کی صورت میں کوئی سود نہیں ہوتا، لیکن اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہو چکا ہے کہ اس حدیث کے ظاہر پر عمل نہیں کیا جائے گا، جیسا امام نووی نے شرح مسلم میں کہا اور امام خطابی نے (اعلام الحدیث: ۲/ ۱۰۶۷) میں کہا: اہل علم نے سیدنا اسامہ bکی حدیث کی اس طرح توجیہ کی ہے کہ یہ صرف حدیث کا آخری حصہ سن سکے ہیں، پہلا حصہ اِن سے رہ گیا تھا، اس کی صورت یہ بنتی ہے کہ جب آپ a سے کھجور کے بدلے جو کییا گندم کے بدلے کھجور کییا سونے کے بدلے چاندی کی تفاضل کے ساتھ بیعکرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ a نے فرمایا: ((اِنَّمَا الرِّبَا فِیْ النَّسِیْئَۃِ۔)) … ’’سود تو صرف ادھار میں ہے۔‘‘ آپa کی مراد یہ تھی کہ اس قسم کے مسئلے میں ادھار میں سود پایا جائے گا، یعنی جب جنسیں مختلف ہو جائیں تو ان میں تفاضل تو جائز ہے، بشرطیکہ وہ نقد و نقد ہوں، ہاں جب ان میں ادھار گھس آیا تو سود لازم آئے گا۔ یہ توجیہ اور معنی اس بنا پر کیا گیا ہے کہ سیدنا اسامہ bکی روایت کے مفہوم کے بر خلاف امت کا اجماع ہو چکا ہے۔ اگر امام خطابی کی تاویل نہ کی جائے اور کہا جائے کہ آپ a نے اس حدیث میں صرف ربا النسیئہ کو حرام قرار دیا ہے تو دوسری خاص نصوص کی روشنی میں ربا الفضل کو بھی ممنوع قرار دیا جائے گا۔ یہ توجیہ کرنے کی اصل بنیاد تو یہ ہے کہ ربا الفضل کی صورت احادیث کے لحاظ سے ناجائز اور حرام ہے اس لیےیہ ممکن نہیں ہے کہ عام لحاظ سے کہا جائے کہ سود صرف ادھار میں ہے۔ اہل علم ’’سود تو صرف ادھار میں ہے‘‘ کی ایک توجیہیہ بھی کرتے ہیں کہ سود کا بڑا حصہ یہ زیادہ تر سود ادھار میں ہے، یہ مقصد نہیں کہ ادھار کے علاوہ سود کی کوئی صورت نہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ شاعر تو صرف فلان ہے، خطیب تو صرف فلان ہے۔ اس سے مقصد دوسرے لوگوں کی شاعری اور خطابت کی نفی نہیں بلکہ کمال درجہ کا شاعر اور خطیب مراد ہوتا ہے۔ (عبداللہ رفیق)