Blog
Books
Search Hadith

قر ض سے محتاط رہنے، بوقت ضرورت اس کے جائز ہونے اور نبی کریمa کے قرض لینے کا بیان

۔ (۶۰۲۲)۔ عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَوْبَانِ عُمَانِیَّانِ أَوْ قَطَرِیَّانِ، فَقَالَتْ لَہُ عَائِشَۃُ: إِنَّ ھٰذَیْنِ ثَوْبَانِ غَلِیْظَانِ تَرْشَحُ فِیْہِمَا فَیَثْقُلَانِ عَلَیْکَ وَإِنَّ فُلَانًا جَائَ ہُ بَزٌّ فَابْعَثْ إِلَیْہِیَبِیْعُکَ ثَوْبَیْنِ اِلَی الْمَیْسَرَۃِ، قَالَ: قَدْ عَرَفْتُ مَایُرِیْدُ مُحَمَّدٌ، اِنَّمَا یُرِیْدُ أَنْ یَذْھَبَ بِثَوْبِیْ أَیْ لا یُعْطِیْنِیْ دَرَاھِمِیْ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ شُعْبَۃُ: أَرَاہُ قَالَ: ((قَدْ کَذَبَ، لَقَدْ عَرَفُوْ أَنِّیْ أَتْقَاھُمْ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) أَوْ قَالَ: ((أَصْدَقُہُمْ حَدِیْثًا وَآداھُمْ لِلْاَمَانَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۶۵۶)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حلیق نصرانی کے پاس بھیجا تاکہ وہ آسانی تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف کچھ کپڑے بھیج دے، پس میں اس کے پاس آیا اور کہا: رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے تیری طرف اس لیے بھیجا ہے کہ تم آسانی تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف کچھ کپڑے بھیج دو، لیکن اس نے (طعن کرتے ہوئے) کہا: آسانی کیا ہوتی ہے اور یہ کب ہوتی ہے؟ اللہ کی قسم! محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بکری ہے نہ اونٹ۔ میں انس یہ بات سن کر واپس آ گیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: یہ اللہ کا دشمن جھوٹ بول رہا ہے، میں سب سے بہتر لین دین کرنے والا ہوں، (لیکنیاد رکھو کہ) اگر کوئی آدمی مختلف ٹکڑوں سے بنا ہوا کپڑا پہن لے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنی امانت کی وجہ سے کوئی ایسی چیز حاصل کرے، جو اس کے پاس نہ ہو۔
Haidth Number: 6022
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۰۲۲) اسنادہ صحیح علی شرط البخاری۔ أخرجہ الترمذی: ۱۲۱۳، والنسائی: ۷/ ۲۹۴ (انظر: ۲۵۱۴۱)

Wazahat

فوائد:… حدیث ِ مبارکہ کے آخری حصے کا مفہوم یہ ہے کہ بندے کو کم سے کم چیزوں پر گزارا کر لینا چاہیے، لیکن اپنی امانت کے سہارے قرض نہیں لینا چاہیے، کیونکہ ممکن ہے کہ بعد میں حالات ساتھ نہ دیں اور قرض کی ادائیگی لیٹ ہو جائے یا موت ہی موقع نہ دے، پہلی صورت میں صفت ِ امانت متأثر ہو گی اور دوسری صورت میں آخرت کا معاملہ خطرے میں پڑ جائے گا۔