Blog
Books
Search Hadith

پڑوسی کی ناپسندیدگی کے باوجود اس کی دیوار پر لکڑی رکھنے کا بیان

۔ (۶۰۹۱)۔ عَنْ عِکْرَمَۃَ بْنِ سَلَمَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ أَنَّ أَخَوَیْنِ مِنْ بَنِیْ الْمُغِیْرَۃِ أَعْتَقَ أَحَدُھُمَا أَنْ لا یَغْرِزَ خَشَبًا فِیْ جِدَارِہِ فَلَقِیَا مُجَمِّعَ بْنَ یَزِیْدَ الْأَنْصَارِیَّ وَرِجَالًا کَثِیْرًا فَقَالُوْا: نَشْہَدُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا یَمْنَعُ جَارٌ جَارَہُ أَنْ یَغْرِزَ خَشَبًا فِیْ جِدَارِہِ۔)) فَقَالَ الْحَالِفُ: أَیْ أَخِیْ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّکَ مَقْضِیٌّ لَکَ عَلَیَّ وَقَدْ حَلَفْتُ فَاجْعَلْ اُسْطُوَانًا دُوْنَ جِدَارِیْ، فَفَعَلَ الْآخَرُ فَغَرَزَ فِیْ الْأُسْطُوَانِ خَشَبَۃً، فَقَالَ لِیْ عَمْرٌو: فَأَنَا نَظَرْتُ إِلٰی ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۳۵)

۔ عکر مہ بن سلمہ سے روایت ہے کہ بنو مغیرہ کے دو بھائی تھے، ان میں سے ایک نے غلا م آزاد کرنے کی قسم اٹھاکر کہا کہ وہ اپنے ہمسائے کواپنی دیوار میں شہتیر نہ رکھنے دے گا، پھر جب ان دونوں کی ملاقات سیدنا مجمع بن یزید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور کئی صحابہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا: ہم لوگ یہ گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں شہتیر وغیرہ رکھنے سے نہ روکے۔ یہ سن کر قسم اٹھانے والے نے کہا: اے میرے بھائی! مجھے پتہ چل گیا کہ یہ فیصلہ میری مخالفت میں اور تیرے حق میں ہونے والا ہے، جبکہ میں قسم بھی اٹھا چکا ہوں، اب تو میری دیوار کے ساتھ ستون بنالے، پس اس نے ایسے ہی کیا اور پھر ستون پر لکڑی رکھ لی۔ عمرو نے مجھ سے کہا: میں نے اس چیز کو دیکھا تھا۔
Haidth Number: 6091
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۰۹۱) تخریج: مرفوعہ صحیح لغیرہ، وھذا اسناد ضعیف، عکرمۃ بن سلمۃ مجھول، و ھشام بن یحیی مستور۔ أخرجہ ابن ماجہ: ۲۳۳۶ (انظر: ۱۵۹۳۹)

Wazahat

فوائد:… ان احادیث میں پڑوسیوں کے حقوق کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے، خود غرضی اور مفاد پرستی کے اس دور میں ان حقوق کی پاسدار کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا، خاص طور پر شہری زندگی میں۔ا گر ایک آدمی کوئی مکان یا چھپر بنانا چاہتا ہے اور ایک دو اطراف سے ہمسائیوں کیدیواریں موجود ہیں تو شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ اس آدمی کو اِن اطراف سے دیواریا ستون بنانے کی تکلیف نہ دی جائے، یہ حق ادا کرنے سے اس کا کام بھی جلدی ہو جائے گا، محنت بھی کم ہو گی اور خرچہ بھی بچ جائے گا۔ لیکن جب یہ حق ادا کرنے کی باری آتی ہے تو کوئی سوچتا ہے کہ اس کی دیوار پر وزن زیادہ آ جائے گا، کوئی کہتا ہے کہ وہ اس کی دیوار کو نقصان پہنچائیں گے، کسی کو یہ فکر لگی ہوتی ہے کہ کل کلاں یہ اس دیوار پر قبضے کا دعوی ہی نہ کر دے، یہ سب خطرات اس وقت سامنے آ جاتے ہیں، جب شریعت کے تقاضوں کو پورا کرنے کا شوق اور رغبت نہ ہو، اگر رسول اللہa کی سنت اور حکم سمجھ کر ہمسائے کا یہ حق ادا کر دیا جائے تو اس کی وجہ سے رحمت و برکت اور اجر و ثواب تو یقینی طور پر مل سکتا ہے، ان شاء اللہ نقصان نہیں ہو گا اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو اللہ تعالی کے لیے صبر کر کے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا جائے اور حدیث ِ رسول کے احترام میں خاموش رہا جائے۔