Blog
Books
Search Hadith

الاٹ کی ہوئی زمینوں اور چراگاہوں کے مسائل زمینیں الاٹ کرنے کا بیان

۔ (۶۱۷۸)۔ (وَعَنْھَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: کَانَتْ زَیْنَبُ تَفْلِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہُ اِمْرَأَۃُ عُثْمَانَ بْنِ مَعْظُوْنٍ وَنِسَائٌ مِنَ الْمُہَاجِرَاتِ یَشْکُوْنَ مَنَازِلَھُنَّ وَأَنَّہُنَّ یُخْرَجْنَ مِنْہُ وَیُضَیَّقُ عَلَیْہِنَّ فِیْہِ، فَتَکَلَّمَتْ زَیْنَبُ وَتَرَکَتْ رَأْسَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّکِ لَسْتِ تَکَلَّمِیْنَ بِعَیْنَیْکِ، تَکَلَّمِیْ وَاعْمَلِیْ عَمَلَکِ۔)) فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَوْمَئِذٍ أَنْ یُوَرَّثَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ النِّسَائُ، فَمَاتَ عَبْدُ اللّٰہِ (بْنُ مَسْعُوْدٍ) فَوَرِثَتْہُ اِمْرَأَتُہُ دَارًا بِالْمَدِیْنَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۷۵۹۰)

۔ (دوسری سند)کلثوم کہتے ہیں: سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جوئیں نکال رہی تھیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی اور کچھ مہاجر خواتین بیٹھی ہوئی تھیں،یہ اپنے گھروں کے بارے میں شکایت کر رہی تھیں کہ (خاوند کی وفات کے بعد) ان کو گھروں سے نکال دیا جاتا ہے اور ان پر تنگی کر دی جاتی ہے، سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک چھوڑ کر بات کرنے لگ گئیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم نے اپنی آنکھوں سے تو باتیں نہیں کرنی، بات بھی کرو اور اپنا کام بھی کرو۔ (یہ ساری باتیں سن کر) اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ عورتوں کو (ان کے مہاجر خاوندوں) کا وارث بنا یا جائے، پس جب سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوئے تو ان کی اہلیہ ان کے مدینہ والے گھر کی وارث بنیں۔
Haidth Number: 6178
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۱۷۸) تخریج: اسنادہ حسن۔ أخرجہ ابوداود: ۳۰۸۰(انظر: ۲۷۰۵۰)

Wazahat

فوائد:… اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب خاوند فوت ہو جائے تو اس کے ورثاء کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کی بیوی کو اس کے گھر سے نکال دیں، بلکہ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ اس کے لیے اس کے گھر کو خالی کر دیں، ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم مہاجرین کے ساتھ خاص تھا اور ان کے ختم ہونے کے ساتھ یہ حکم بھی ختم ہو گیا، واللہ اعلم۔ اب میراث کے احکام مرتّب ہو چکنے کے بعد بیوی کو اس کا مخصوص حصہ دیا جائے گا، لیکن اس معاملے میں اس کو جتنی سہولت پہنچائی جا سکتی ہو، وہ پہنچانی چاہیے، مثلا اگر اس کا حصہ اس کے خاوند کے گھر کی قیمت کے برابر ہو تو اس کو گھر دے دیا جائے، بہرحال جتنا ممکن ہو ترکہ کی تقسیم میں بیوی کی رضامندی کا خیال رکھا جائے۔