Blog
Books
Search Hadith

اس چیز کا بیان کہ شفعہ کا حق کب ختم ہوتا ہے

۔ (۶۲۳۱)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالشُّفْعَۃِ فِیْ کُلِّ مَا لَمْ یُقْسَمْ فَاِذَا وَقَعَتِ الْحُدُوْدُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَـلَا شُفْعَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۶۳)

۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس چیز میں شفعہ کے حق کا فیصلہ دیا ہے جس کو تقسیم نہ کیا گیا ہو، جب کسی چیز کی حد بندی ہو جاتی ہے اور راستے الگ الگ کر لیے جاتے ہیں تو شفعہ کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔
Haidth Number: 6231
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۲۳۱) تخریج: أخرجہ البخاری: ۲۲۱۴، ۲۲۵۷، ۲۴۹۶ (انظر: ۱۵۲۸۹)

Wazahat

فوائد:… سیدنا ابو ہریرہbسے مروی ہے کہ رسول اللہa نے فرمایا: ((اِذَا قُسِمَتِ الدَّارُ وَ حُدَّتْ فَـلَا شُفْعَۃَ فِیْھَا۔)) (ابوداود: ۳۵۱۵) جب گھر تقسیم کر دیا جائے اور اس کی حدبندی کر دی جائے تو اس میں کوئی حق شفعہ نہیں۔‘‘ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صرف اس چیز میں شفعہ کرنے کا حق ہے، جو مختلف حصہ داروں کے مابین مشترک ہو۔ درج بالا دو ابواب میں مذکورہ احادیث درج ذیل تین مختلف امور پر مشتمل ہیں: (۱)پڑوسی کو شفعہ کرنے کا حق ہے۔ (۲)پڑوسی کو شفعہ کرنے کا حق اس وقت ہے، جب ان کا راستہ ایک ہو۔ (۳)صرف حصہ دار کو شفعہ کا حق حاصل ہے۔ جمع و تطبیق کی صورتیں درج ذیل ہیں: (۱) جیسے ’’جَار‘‘ لفظ کا اطلاق پڑوسی اور ہمسائے پر ہوتا ہے، اسی طرح اس کا اطلاق شریک پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ عربی لغت قاموس میں ہے، مولانا وحید الزمان قاسمی دیوبندی نے عربی اردو لغت پر مشتمل اپنی کتاب ’’القاموس الوحید‘‘ میں لفظ ’’جَار‘‘ کے نو (۹) معانی بیان کیے ہیں، ان میں سے پہلے دو معانییہ ہیں: پڑوسی، شریک کار جائداد یا تجارت میں ساجھی۔ اگر پچھلے ابواب کی احادیث ِ مبارکہ میں مذکورہ لفظ ’’جَار‘‘ کا معنی ساجھی اور شریک کے کیے جائیں تو سرے سے اس مسئلے میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ شفعہ کا حق صرف حصہ دار کو ہے۔ اس باب میں مذکورہ احادیث کو دیکھا جائے تو یہی معنی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ (۲) اگر ’’جَار‘‘ کے معانی پڑوسی اور ہمسائے کے ہی کیے جائیں تو اس سے مراد ہمسائے کے ساتھ خیر و بھلائی، اعانت و معاونت، ہمدردی و خیرخواہی اور ایثار و قربانی والا معاملہ ہوگا، کیونکہ ان احادیث میں شفعہ کے حق کی وضاحت تو نہیں کی گئی، صرف اتنا کہا گیا ہے کہ وہ پڑوسی اپنے پڑوس کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے۔ احادیث میںیہ الفاظ پہلے ذکر ہوئے ہیں ’’الجاء احق بشفعۃ جارہ‘‘، ’’الجار احق بالدار‘‘ پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے۔ اس جگہ یہ بات زیادہ مناسب ہے کہ آپa نے ’’اَحَقُّ‘‘ فرمایا ہے یعنی زیادہ حقدار ہے، اس کی خیر خواہی ہونی چاہیے۔ ہاں ہر لحاظ سے اس کا ضروری حق نہیں ہے۔ (عبداللہ رفیق)