Blog
Books
Search Hadith

بیمار آدمی کا ایک تہائی مال یا اس سے کم سے صدقات و خیرات کرنے کے جواز اور اس سے زیادہ کرنے کی ممانعت کا بیان

۔ (۶۳۲۴)۔ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَمَرِضْتُ مَرَضًا أَشْفَیْتُ عَلٰی الْمَوْتِ فَعَادَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقُلْتُ: یَارَسُوْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! إِنَّ لِیْ مَالًا کَثِیْرًا وَلَیْسَیَرِثُنِیْ اِلَّا ابْنَۃٌ لِیْ، أَفَأُوْصِیْ بِثُلُثَیْ مَالِیْ؟ قَالَ: ((لَا۔)) قُلْتُ: بِشَطْرِ مَالِیْ؟ قَالَ: ((لَا۔)) قُلْتُ: بِثُلُثِ مَالِیْ؟ قَالَ: ((اَلثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ، إِنَّکَ یَا سَعْدُ! أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَائَ خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تَدَعَہُمْ عَالَۃًیَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ، إِنَّکَ یَا سَعْدُ! لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَۃً تَبْتَغِیْ بِہَا وَجْہَ اللّٰہِ تَعَالٰی اِلَّا أُجِرْتَ عَلَیْہَا، حَتَّی اللُّقْمَۃَ تَجْعَلُہَا فِیْ فِیْ اِمْرَأَتِکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِیْ؟ قَالَ: ((إِنَّکَ لَنْ تَتَخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِیْ بِہٖوَجْہَاللّٰہِتَعَالٰی اِلَّا ازْدَدْتَّ بِہٖدَرَجَۃً وَرِفْعَۃً، وَلَعَلَّ تُخَلَّفُ حَتّٰییَنْفَعَ اللّٰہُ بِکَ أَقْوَامًا وَیَضُرَّ بِکَ آخَرِیْنَ، اَللّٰہُمَّ اَمْضِ لِأَصْحَابِیْ ہِجْرَتَہُمْ وَلَا تَرُدَّھُمْ عَلٰی أَعْقَابِہِمْ۔)) لٰکِنَّ الْبَائِسَ سَعْدُ بْنُ خَوْلَۃَ رَثٰی لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ مَاتَ بِمَکَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۵۲۴)

۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، ہوا یوں کہ میں بیمار ہو گیا اور ایسے لگا کہ موت قریب آ گئی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری تیمار داری کرنے کے لیے تشریف لائے، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں بہت زیادہ مال والا ہوں اور صرف میری ایک بیٹی میری وارث بننے والی ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت نہ کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: نصف مال کی وصیت کر دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: ایک تہائی مال کی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، تیسرے کی ٹھیک ہے اور یہ بھی زیادہ ہے، اے سعد! اگر تو اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں ایسی فقیری کی حالت میں چھوڑے کہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں، اے سعد! اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو بھی خرچ کرو گے، اس کا اجر پاؤ گے، حتیٰ کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کو کھلاتے ہو، اس میں بھی اجر پاؤ گے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں (اس بیماری کی وجہ سے) اپنے ساتھیوں کے بعد مکہ میں رہ جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو باقی رہ بھی جائے اور اللہ تعالی کی رضامندیتلاش کرنے کے لیے جو عمل بھی کرے گا تو اس کے ذریعے تیرے درجے بلند ہوں گے، ممکن ہے کہ تو زندہ رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے بعض لوگوں کو فائدہ پہنچائے اور بعض کو نقصان۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت مکمل فرما دے اور ان کو ان کی ایڑیوں کے بل نہ لوٹا، لیکن بیچارہ سعد بن خولہ۔ دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر اس لیے ترس آتا تھا کہ وہ مکہ میں فوت ہو گئے تھے۔
Haidth Number: 6324
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۳۲۴) تخریج: أخرجہ البخاری: ۵۶، ۳۹۳۶، ۵۶۶۸، ومسلم: ۱۶۲۸ (انظر: ۱۵۲۴)

Wazahat

فوائد:… نبی کریمa کی پیشین گوئی پوری ہوئی اور سیدنا سعد b نے اس بیماری سے شفایاب ہوکر اتنی طویل زندگی پائی کہ وہ عراق وغیرہ کی فتح میں شریک ہوئے، ان کی وجہ سے کئی مسلمانوں کو دین و دنیا میں فائدہ ہوا اور کئی کافروں کو اسی قسم کا نقصان ہوا، اس وقت تو ان کیصرف ایک بیٹی تھی، لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کثیر اولاد سے نوازا حافظ ابن حجرk نے ان کے نو بیٹوں اور بارہ بیٹیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ بہرحال اس حدیث ِ مبارکہ سے مسئلہ یہ سمجھ آیا کہ آدمی کو ایک تہائی مال سے زائد وصیت کرنے کا اختیار نہیں ہے، آپa کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک تہائی کی مقدار بھی زیادہ ہے، اس سے بھی کم وصیت کرنی چاہیے۔