Blog
Books
Search Hadith

قاضی کے فیصلے میں درستی اور خطا دونوں کے امکان، مجتہد قاضی کے اجر اور اس کے فیصلہ کرنے کی کیفیت کا بیان

۔ (۶۳۸۹)۔ عَنِ ابْنِ قَیْسٍ مَوْلٰی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ فَاصَابَ فَلَہُ اَجْرَانِ وَاِذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ فَاَخْطَأَ فَلَہُ أَجْرٌ)) قَالَ: فَحَدَثَّتُ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ أَبَا بَکْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ: ھٰکَذَا حَدَّثَنِیْ اَبُوْسَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ۔ (مسند احمد:۱۷۹۲۶)

۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب حاکم پوری محنت کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور درستی کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور جب پوری محنت کے باوجود اس سے خطا ہو جاتی ہے تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔ یہ حدیث سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بھی مروی ہے۔
Haidth Number: 6389
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۳۸۹) تخریج: أخرجہ البخاری: ۷۳۵۲، ومسلم: ۱۷۱۶(انظر: ۱۷۷۷۴)

Wazahat

فوائد:… حاکم، شرعی علم و فہم میں اتنا بلند مقام رکھتا ہو کہ اس میں اجتہاد کرنے کی صلاحیت ہو، جس آدمی میں اجتہاد کرنے کی صلاحیت نہ ہو، اس کو حاکم بننے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، ایسا شخص خود بھی گمراہ ہو گا اور دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرے گا، ایسے شخص کی قرآن و حدیث کی نصوص میں سخت مذمت کی گئی ہے، مثال کے طور پرسیدنا ابو ہریرہb سے مروی ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ((مَنْ أُفْتِیَ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ إِثْمُہُ عَلٰی مَنْ أَفْتَاہُ ))… ’’جس آدمی کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا، اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہو گا۔‘‘ (ابوداود: ۳۶۵۷) ہمارے معاشرے میں جہاں دینی و شرعی علم کی قدر بہت کم ہوئی ہے، وہاں اس علم کے حاملین بھی بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں، اللہ تعالی گواہ ہے کہ اب خاندانوں اور بازاروں کے فیصلے کرنے والی پنچائتیں ایسے ایسے افراد پر مشتمل ہوتی ہیں، جو بے نماز اور بد کردار ہوتے ہیں اور کوئی ایک سورت یا حدیث ترجمہ کے ساتھ سنانے پر بھی قادر نہیں ہوتے، صرف وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ سرمایہ دار ہوتے ہیںیا رہ چکے ہوتے ہیں، ایسی پنچائتوں کے چند فیصلےیہ ہیں: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں، صاحبوں نے عدت کے اندر ہی اسی خاوند کے ساتھ دوبارہ نکاح کر دیا، جبکہ ایسا کرنے والے لوگ حنفی تھے، جن کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، ان لوگوں نے ایک ظلم تو یہ کیا کہ تین طلاقوں کے بعد اسی خاوند سے نکاح کر دیا، جبکہ ایسا نکاح قبول ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے اور دوسرا ظلم یہ کیا کہ عدت کے اندر نکاح کر دیا، جبکہ عدت کے اندر خاتون کا نکاح نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے زیادہ قابل افسوس فیصلہ کہ ایک اور خاوند نے اپنی بیوی کو اسی طرح تین طلاقیں دے دیں، بیوی اور اس کے سسرال والے بیوی کے والدین کو اس وقوعہ کی اطلاع نہیں دینا چاہتے تھے، سو جاہلوں نے اس کا حل کیا نکالا کہ سسر نے اپنی اس بہو سے کہا: تم مجھے ولی تسلیم کر لو، میں اپنے بیٹے کے ساتھ تمہارا دوبارہ نکاح کرا دیتا ہوں، پس ایسے ہی ہوا، اوپر والی مثال والے دو مظالم بھی تھے اور تیسرا ظلم یہ بھی تھا کہ ولی کے بغیررسمِ نکاح رچا دی گئی۔ حمید نے کسی کا حق دینا تھا، جبکہ وہ انکار پر تلا ہوا تھا، پنچائت نے فیصلہ کیا کہ حمید نے قسم اٹھانی ہے، لیکن حقدار اس کی قسم پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہ تھا، اس نے کہا کہ حمید کی بجائے اس کا بھائی حامد قسم اٹھائے، جبکہ حامد کو اس معاملے کی کوئی خبر نہ تھی، لیکن پنچائت نے یہ فیصلہ دینا چاہا کہ چلو حامد قسم اٹھا لے۔ یہ علم شرعی سے محرومی اور شرعی علوم کے حاملین کی بے وقعی کے نتائج ہیں۔