Blog
Books
Search Hadith

مؤمن کے قتل پر سخت وعید اور سختی کا بیان

۔ (۶۴۴۴)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ: یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! اَرَاَیْتَ رُجَلًا قَتَلَ مُؤْمِنًا؟ قَالَ: ثَکِلَتْہُ أُمُّہُ، وَأَنّٰی لَہُ التَّوْبَۃُ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ الْمَقْتُوْلَ یَجِیْئُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُتَعَلِّقًا رَأْسَہُ بِیَمِیْنِہِ، أَوْ قَالَ: بِشَمَالِہِ، آخِذًا صَاحِبَہُ بِیَدِہِ الْأُخْرٰی تَشْخَبُ أَوْدَاجُہُ دَمًا فِیْ قِبَلِ عَرْشِ الرَّحْمٰنِ فَیَقُوْلُ: رَبِّ! سَلْ ھٰذَا فِیْمَ قَتَلَنِیْ؟)) (مسند احمد: ۲۶۸۳)

۔ (دوسری سند) ایک آدمی، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور کہا : اے ابن عباس!اس آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جو مومن کو قتل کر دیتا ہے؟ انھوں نے کہا:اس کی ماں اسے گم پائے، اس کے لیے توبہ کہاں سے آئے گی، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ بیشکمقتول قیامت والے دن اپنے دائیںیا بائیں کے ساتھ اپنے سر کو پکڑ کر اور دوسرے ہاتھ سے اپنے قاتل کو پکڑ کر رحمن کے عرش کی طرف لائے گا،جبکہ اس کی رگیں خون بہا رہی ہوں گی، اور وہ کہے گا: اے میرے ربّ! اس سے پوچھو، اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا۔
Haidth Number: 6444
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۴۴۴) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… یہ نظریہ سیدنا ابن عباس bکا تھا، لیکن بعد والے اہل علم نے ان کے ساتھ اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ توبہ سے قاتل کا گناہ زائل ہو سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ توبہ کے ذریعے تو کفر و شرک جیسے جرائم معاف ہو جاتے ہیں، ان سے ہلکے درجے کے گناہ معاف کیوں نہیں ہوں گے۔ اہل سنت نے سورۂ نساء کی اس آیت کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اگر کوئی آدمی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرنے کے بعد اور توبہ کیے بغیر مر جاتا ہے تو اس کی معافی پھر بھی ممکن ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: {اَنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖوَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَّشَائُ} (النسائ:۴۸) ’’بیشک اللہ تعالی اس جرم کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اس کے علاوہ جو گناہ ہو، وہ جس کیلئے چاہے معاف کر دیتا ہے۔‘‘