Blog
Books
Search Hadith

حکمرانوں سے قصاص لیے جانے کا بیان، الا یہ کہ مستحق صلح کر لے یا معاف کر دے

۔ (۶۵۶۲)۔ عَنْ اَبِیْ فِرَاسٍ قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (فَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا فِیْہ: أَلَا اِنِّیْ وَاللّٰہِ! مَا أُرْسِلُ عُمَّالِیْ اِلَیْکُمْ لِیَضْرِبُوْا أَبْشَارَکُمْ وَلَا لِیَأْخُذُوْا أَمْوَالَکُمْ، وَلٰکِنْ أُرْسِلُہُمْ إِلَیْکُمْ لِیُعَلِّمُوْکُمْ دِیْنَکُمْ وَسُنَّتَکُمْ فَمَنْ فُعِلَ بِہِ شَیْئٌ سِوٰی ذَالِکَ فَلْیَرْفَعْہُ إِلَیَّ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ إِذًا لَاُقِصَّنَّہُ مِنْہُ، فَوَثَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَالَ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَوَ رَاَیْتَ إِنْ کَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی رَعِیَّۃٍ فَأَدَّبَ بَعْضَ رَعِیَّتِہِ أَئِنَّکَ لَمُقْتَصُّہُ مِنْہُ؟ قَالَ: اِیْ وَالَّذِیْ نَفْسُ عُمَرَ بِیِدِہِ! إِذًا لَاُقِصَّنَّہُ مِنْہُ، وَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقِصُّ مِنْ نَفْسِہِ۔ (مسند احمد: ۲۸۶)

۔ ابو فراس سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خطبہ دیا، جس میں انھوں نے ایک لمبی حدیث ذکر کی اور کہا: خبر دار! میں تم پر حکومتی کارندوں کو اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ تمہارے جسموں پر ضربیں لگائیں اور تمہارے مال چھین لیں، میں تو ان کو تمہار ے پاس اس لیے بھیجتا ہوں کہ وہ تمہیں دین اور سنت کی تعلیم دیں، جس کے ساتھ کوئی اور کاروائی کی جائے، وہ مجھے بتائے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس سے ضرور ضرور قصاص دلوائوں گا، سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اچھل کر کھڑے ہوئے اور کہا: اے امیر المومنین، آپ بتائیں کہ ایکآدمی رعایا پر مقرر ہوتا ہے اور اسے ادب سکھانے کے لیے سزا دیتا ہے، کیا آپ اس سے بھی قصاص لیں گے؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، اس ذات قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے! میں اس کو ضرورقصاص دلواؤں گا، میں نے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے نفس سے قصاص دلواتے تھے۔
Haidth Number: 6562
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۵۶۲) تخریج: ابو فراس النھدی، وقال ابو زرعہ: لا اعرفہ۔ أخرجہ ابوداود: ۴۵۳۷، والنسائی: ۸/۳۴ (انظر: ۲۸۶)

Wazahat

فوائد:… عبد اللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر b نے کہا: إِنَّ أُنَاسًا کَانُوا یُؤْخَذُونَ بِالوَحْیِ فِی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ الوَحْیَ قَدِ انْقَطَعَ، وَإِنَّمَا نَأْخُذُکُمُ الآنَ بِمَا ظَہَرَ لَنَا مِنْ أَعْمَالِکُمْ، فَمَنْ أَظْہَرَ لَنَا خَیْرًا، أَمِنَّاہُ، وَقَرَّبْنَاہُ، وَلَیْسَ إِلَیْنَا مِنْ سَرِیرَتِہِ شَیْء ٌ اللَّہُ یُحَاسِبُہُ فِی سَرِیرَتِہِ، وَمَنْ أَظْہَرَ لَنَا سُوء ًا لَمْ نَأْمَنْہُ، وَلَمْ نُصَدِّقْہُ، وَإِنْ قَالَ: إِنَّ سَرِیرَتَہُ حَسَنَۃٌ۔… بیشک عہد ِ نبوی میں وحی کے ذریعے لوگوں کا مؤاخذہ ہو جاتا تھا، اب وحی تو منقطع ہو چکی ہے، پس اب ہم تمہارے ظاہری اعمال کی روشنی میں تمہاری گرفت کریں گے، جو ہمارے لیے خیر و بھلائی کا اظہار کرے گا، ہم اس کو امین سمجھیں گے اور اس کو اپنے قریب کریں گے، جبکہ اس کے باطن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہو گا، اللہ تعالی اس کے باطن کا محاسبہ کرے گا، اور جو آدمی ہمارے لیے برے اعمال کو ظاہر کرے گا، ہم اس کو امین سمجھیں گے نہ اس کی تصدیق کریں گے، اگرچہ اس کا باطن پاک ہو۔ (صحیح بخاری: ۲۶۴۱)