Blog
Books
Search Hadith

حکمرانوں سے قصاص لیے جانے کا بیان، الا یہ کہ مستحق صلح کر لے یا معاف کر دے

۔ (۶۵۶۳)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَ أَبَاجَہْمٍ مُصَدِّقًا فَلَاجَّہُ رَجُلٌ فِیْ صَدَقَتِہِ فَضَرَبَہُ أَبُوْ جَہْمٍ فَشَجَّہُ فَأَتَوُا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: الْقَوَدَ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَکُمْ کَذَا وَکَذَا۔)) فَلَمْ یَرْضَوْا، قَالَ: ((فَلَکُمْ کَذَا وَکَذَا۔)) فَلَمْ یَرْضَوْا، قَالَ: ((فَلَکُمْ کَذَا وَکَذَا۔)) فَرَضُوْا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنِّیْ خَاطِبٌ عَلَی النَّاسِ وَمُخْبِرُھُمْ بِرِضَاکُمْ۔)) قَالُوْا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اِنَّ ھٰؤُلَائِ اللَّیْثِیِّیْنَ أَتَوْنِیْیُرِیْدُوْنَ الْقَوَدَ فَعَرَضْتُ عَلَیْہِمْ کَذَا وَکَذَا فَرَضُوْا، أَ رَضِیْتُمْ؟)) قَالُوْا: لَا، فَہَمَّ الْمُہَاجِرُوْنَ بِہِمْ فَأَمَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَکُفُّوْا فَکَفُّوْا ثُمَّ دَعَاھُمْ فَزَادَھُمْ وَقَالَ: ((أَرَضِیْتُمْ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: ((فَاِنِّیْ خَاطِبٌ عَلَی النَّاسِ وَمُخْبِرُھُمْ بِرَضَاکُمْ۔)) فَخَطَبَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((أَرَضِیْتُمْ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۸۵)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو جہم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو صدقہ کی وصولی کے لیے بھیجا، ایک آدمی نے صدقہ دینے میں ان سے جھگڑا کیا، جواباً ابو جہم نے اسے مار کر اس کا سرزخمی کر دیا، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور قصاص کا مطالبہ کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اتنا کچھ لے لو۔ لیکن وہ راضی نہ ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چلو تمہیں اتنا کچھ مل جائے گا۔ لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چلو، تم کو اتنا کچھ دے دیتے ہیں۔ پس اب کی بار وہ راضی ہوگئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میں لوگوں سے خطاب کرتا ہوں اور ان کو تمہاری رضا مندی سے آگا ہ کرتا ہوں؟ انہوں نے کہا: جی ٹھیک ہے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: لیث قبیلے کے یہ افراد میرے پاس آئے، انھوں نے قصاص کا مطالبہ کیا، میں نے ان پر اتنا مال پیش کیا اور ان سے پوچھا: کیا اب راضی ہو گئے ہوں؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، مہاجرین نے ان کو کچھ کہنا چاہا، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو رکنے کا حکم دیا تو وہ رک گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بلایا اور مزید دے کر فرمایا: اب راضی ہو گئے ہو؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس بیشک میں لوگوں کو خطاب کر کے ان کو تمہاری رضا کے بارے میں بتلانے والا ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مخاطب ہوئے اور فرمایا: کیا تم لوگ اب راضی ہو گئے ہو؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔
Haidth Number: 6563
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۵۶۳) اسنادہ صحیح۔ أخرجہ ابوداود: ۴۵۳۴، والنسائی: ۸/ ۳۵، وابن ماجہ: ۲۶۳۸ (انظر: ۲۵۹۵۸)

Wazahat

فوائد:… اگر بادشاہ اور کوئی صاحب ِ اختیار و اقتدار حکمران کسی کے ساتھ اس قسم کی زیادتی اور مار کٹائی والا معاملہ کرے، جیسا کہ سیدنا ابو جہم b نے کیا تھا تو اس سے قصاص لیا جائے گا، تاہم فریقِ ثانی کو کچھ دے دلا کر بھی معاملہ رفع دفع کیا جا سکتا ہے۔ اس حدیثسےیہ بھی معلوم ہوا کہ جب مظلوم قصاص کا ہی مطالبہ کر رہا ہو تو اس کو اس کی دیت سے زیادہ دے کر اس کو راضی کیا جا سکتا ہے۔ دیہاتی طبعاً سخت مزاج اور لاعلم ہوتے ہیں، اسی بنا پر انھوں نے نبی کریمa کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا، آپa نے اپنی وسعت ِ ظرفی اور حسن اخلاق کی روشنی میں ان کے اس رویے سے در گزر فرمایا۔