Blog
Books
Search Hadith

قتل کے علاوہ اعضا اور زخموں وغیرہ کی دیت کا بیان

۔ (۶۵۹۳)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖأَنَّرَسُوْلَاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَضٰی فِی الْأَنْفِ اِذَا جُدِعَ کُلُّہُ الدِّیَۃً کَامِلَۃً، وَاِذَا جُدِعَتْ أَرْنَبَتُہُ فَنِصْفَ الدِّیَۃِ، وَفِی الْعَیْنِ نِصْفَ الدِّیَۃِ، وَفِی الْیَدِ نِصْفَ الدِّیَۃِ، وَفِی الرِّجْلِ نِصْفَ الدِّیَۃِ، وَقَضٰی أَنْ یَعْقِلَ عَنِ الْمَرْأَۃِ عَصَبَتُہَا مَنْ کَانُوْا، وَلَا یَرِثُوْنَ مِنْہَا اِلَّا مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِہَا، وَإِنْ قُتِلَتْ فَعَقْلُہَا بَیْنَ وَرَثَتِہَا وَھُمْ یَقْتُلُوْنَ قَاتِلَہَا، وَقَضٰی أَنَّ عَقْلَ أَھْلِ الْکِتَابِ نِصْفُ عَقْلِ الْمُسْلِمِیْنَ وَھُمُ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی۔ (مسند احمد: ۷۰۹۲)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فیصلہ فرمایاکہ جب کسی کا ناک مکمل کٹ جائے تو اس کی پوری دیت ہے،جب ناک کی نوک کٹ جائے تو نصف دیت ہے، ایک آنکھ میں نصف دیت ہے، ایک ہاتھ میں نصف دیت ہے اور ایک پائوں میں نصف دیت ہے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فیصلہ فرمایاکہ عورت کی دیت اس کے عصبہ ادا کریں گے اور وہ جو بھی ہوں اور یہ عصبہ اس عورت کے اصحاب الفروض سے بچنے والے مال کے وارث بنیں گے، اور اگر خاتون قتل ہو جائے تو اس کی دیت اس کے وارثوں کو ملے گی اور وہی اس کے قاتل کو قتل کریں گے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اہل کتاب یعنییہود ونصاریٰ کی دیت مسلمانوں کی دیت کی بہ نسبت نصف ہے۔
Haidth Number: 6593
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۵۹۳) اسنادہ حسن۔ أخرجہ ابوداود: ۴۵۶۴، والنسائی: ۸/ ۴۳، وابن ماجہ: ۲۶۴۷(انظر: ۷۰۹۲)

Wazahat

فوائد:… حدیث مبارکہ میںمذکورہ احکام واضح ہیں، بعض اعضا کی دیت بیان کی گئی ہے، اس حدیث میں ایک اہم مسئلہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ قتل خطا اور قتل شبہ عمد والے قاتل پر جو دیت پڑے گی، وہ یہ دیت خود ادا نہیں کرے گا، بلکہ یہ دیت اس کے ’’عَاقِلہ‘‘ (عصبہ) ادا کریں گے، بعض روایات میں ’’عَاقِلَہ‘‘ کے الفاظ ہیں اور بعض میں عصبہ کے۔ ’’عَاقِلہ‘‘:… کسی کے باپ کی طرف سے وہ رشتہ دار جو دیت کی ادائیگی میں شریک ہوں، مثلا بھائی، بھتیجے، چچے، چچا زادے وغیرہ۔ لیکن ان رشتہ داروں میں اس قاتل کا بیٹا داخل ہے نہ باپ، جب قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کیا تو ہر ایک کا خاوند بھی تھا اور اولاد بھی تھی، لیکن راوی کہتے ہیں: فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ V دِیَۃَ الْمَقْتُوْلَۃِ عَلٰی عَاقِلَۃِ الْقَاتِلَۃِ وَبَزَأَ زَوْجَھَا وَوَلَدَھَا۔… رسول اللہa نے مقتول خاتون کی دیت قاتل خاتون کے عاقلہ پر ڈال دی اور اس کے خاوند اور اولاد کو دیت کی ادائیگی سے مستثنی کر دیا۔ (ابوداود: ۴۵۷۵، ابن ماجہ: ۲۲۴۸) یہ مسئلہ شریعت کے عام قوانین سے ہٹ کر ہے، عام قانون یہ ہے کہ مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہو گا، لیکن قتل خطا کی دیت میں شریعت ِ مطہرہ نے یہ رخ اختیار کیا ہے، دراصل شریعت کا مقصود یہ ہے کہ قتل خطا والا قاتل مجرم نہیں ہے اور قتل شبہ عمد والا مجرم تو ہے کہ اس کے ہاتھ سے مسلمان قتل ہو گیا، لیکن اس کا ارادہ قتل کا نہیں تھا، اس لیے اگر ساری دیت ان پر ڈال دی جائے تو ممکن ہے کہ ان کا سارا مال ختم ہو جائے یا وہ مقروض ہو جائیں اور پھر دست ِ سوال پھیلانا شروع کر دیں، لیکن جن لوگوں کا قتل ہو گیا ہے، ان کے مقتول کے خون کو بھی رائیگاں نہیں چھوڑا جا سکتا، پس شریعت نے نرمی کرتے ہوئے ایک نئی راہ نکالی کہ ایسے قاتل کے مخصوص رشتہ دار اس کی طرف سے دیت ادا کریں۔ علم میراث میں ’’عصبہ‘‘ کی جو تعریف کی جاتی ہے وہ اور ہے، اس میں باپ، بیٹا اور پوتا داخل ہیں۔ ایک میراث کا مسئلہ بیانکیا گیا کہ اگر کوئی عورت قتل ہو جائے تو اس کے اپنے ترکہ کی طرح اس کی دیت کا مال بھی علم میراث کے قوانین کے مطابق اس کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا، عصبہ کو اصحاب الفروض سے بچا ہوا مال ملتا ہے، اس حدیث میں اسی نقطے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔