Blog
Books
Search Hadith

حکمران تک پہنچانے سے پہلے حد کو ثابت کرنے والے گناہ کا ارتکاب کرنے والے شخص پر پردہ ڈالنے کے مستحب ہونے کا بیان

۔ (۶۶۳۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) فَذَکَرَ مَعْنَاہُ وَقَالَ: کَأَنَّمَا أُسِفَّ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذُرَّ عَلَیْہِ رَمَادٌ۔ (مسند احمد: ۴۱۶۹)

۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: ایسے لگ رہا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا ہے اور آپ کے چہرے پر راکھ ڈال دی گئی ہے۔
Haidth Number: 6639
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۶۳۹) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… اس حدیث میں ایک دو باتیں وضاحت طلب، دوسری حدیث کا مفہوم تو عیاں ہے۔ ۱۔ بات یہ ہے کہ اس میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آدمی نے سب سے پہلے چوری کی اور اس پر حد لگائی گئی جبکہ دوسری روایت میں آتا ہے وہ جس پر چوری کی سب سے پہلے حد لگائی گئی وہ عورت تھی تو ان میں مطابقت اس طرح ہے کہ عورتوں میں اسلام میں سب سے پہلے چوری میں جسے حد لگائی گئی وہ عورت تھی جس کا ذکر ہوا ہے اور جس میںیہ آیا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جو چوری کی حد لگائی گئی وہ مرد تھا تو یہ مردوں کے اعتبار سے سب سے پہلے تھا۔ ۲۔ بظاہر اس حدیث سے احساس ابھرتا ہے کہ حد قائم کرنا کوئی اچھا کام نہیں اور اس پر نبی کریمaنے ایسے انداز میں غصے کا اظہار فرمایا کہ یوں لگ رہا ہے کہ حد لگانے سے درگزر سے کام لینا چاہیے، حالانکہ ہرگز ایسا نہیں۔ آپa نے آیت ِ مبارکہ اس لئے تلاوت فرمائی تھی کہ امام وقت کی عدالت تک پہنچنے سے پہلے پہلے معاف کر کے پردہ پوشی کی جائے اس کے خلاف فوراً عدالت میں معاملہ لانے کو نبی کریمa نے ناپسند کیا ہے مگر جب معاملہ حد امام وقت کی عدالت میں پیش ہو جائے تو پھر تو حد قائم کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ضرور بھر ضرور قائم ہوگی۔ حدیث نمبر (۶۶۲۷)میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ حاکم کی عدالت میں پہنچنے سے پہلے حد کو معاف کرنا یا کروا لینا درست ہے، تاہم شریعت نے جس چیز کو مستثنی قرار دیا ہے، اس میں حاکم کے پاس لانے کے بعد بھی معافی ہو سکتی ہے، جیسے مقتول کے ورثائ، قاتل کو بعد میں بھی معاف کر سکتے ہیں۔