Blog
Books
Search Hadith

اجنبی عورت پر اچانک پڑ جانے والی نگاہ کی معافی کا اور ایسی نگاہ کے بعد نظر جھکا لینے کے ثواب بیان اور آپ a کا فرمان کہ ’’جب کوئی آدمی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کو پسند آ جائے تو وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچے (اور جماع کرے)

۔ (۶۶۶۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْاَنْصَارِیِّ أَنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأَی امْرَأَۃً فَأَعْجَبَتْہُ فَاَتٰی زَیْنَبَ وَھِیَ تَمْعَسُ مَنِیْئَۃً فَقَضٰی مِنْہَا حَاجَتَہُ، وَقَالَ: ((إِنَّ الْمَرْأَۃَ تُقْبِلُ فِیْ صُوْرَۃِ شَیْطَانٍ وَتُدْبِرُ فِیْ صُوْرَۃِ شَیْطَانٍ فَاِذَا رَأَی أَحَدُکُمُ امْرَأَۃً فَأَعْجَبَتْہُ فَلْیَأْتِ أَھْلَہُ فَاِنَّ ذَاکَ یَرُدُّ مَا فِیْ نَفْسِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۵۹۱)

۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک عورت کو دیکھا، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اچھی لگی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی حرم پاک سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس تشریف لے گئے، جبکہ وہ چمڑا مل رہی تھیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے اپنی حاجت پوری کی اور فرمایا: بے شک عورت شیطان کی صورت میں متوجہ ہوتی ہے اور شیطان کی صورت میں ہی پیٹھ پھیر کر جاتی ہے، اس لیے جب کوئی آدمی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کو اچھی لگے تو وہ اپنی بیوی کے پاس جائے اور (اپنی حاجت پوری کر لے)، یہ چیز اس کے نفس کے برے خیال کو ختم کر دے گی۔
Haidth Number: 6665
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۶۶۵) تخریج: أخرجہ مسلم: ۱۴۰۳(انظر: ۱۴۵۳۷)

Wazahat

فوائد:… انسان پاکباز اور پاکدامن رہنے کی فکر رکھتا ہو، تو اس حدیث میں بیان کیا ہوا اصول اس کا سب سے بڑا معاون ہو گا، کیونکہ پاکدامنی اسی وقت متاثر ہوتی، جب آدمی غیر محرم خواتین کے پیچھے پڑتا ہے اور پھر دن بدن شیطان اس کے دل میں گھر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر کوئی اس قانون پر عمل کرے گا تو اس کو دو برکتوں کا حصول ہو گا، ایک غیر محرم عورت سے بے رخی اختیار کرنا اور دوسرا اپنی بیوی سے مجامعت کرنا، مؤخر الذکر کو آپ a باعث ِ اجر قرار دیا ہے، شیطان ایسے آدمی سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ اس حدیث ِ مبارکہ کے شروع والے حصے میں میں ایک بات قابل توجہ ہے کہ وہ خاتون نبی کریمa کو اچھی لگی، اس کے بارے میں ابن عربی لکھتے ہیں: آپ a کو اپنے دل میں جو خیال آیا،یہ ایسا معاملہ ہے، جس پر نہ شرعاً مؤاخذہ ہو گا اور نہ آپ a کی رفعت و منزلت میں کوئی کمی آئے گی، آپ a نے جو چیز محسوس کی ہے، یہ آدمی کی جبلّت ہے، جبکہ آپ a معصوم اور حکیم تھے، اس کے باوجود آپa نے حق زوجیت ادا کر کے پاکدامنی کے ساتھ اس جبلی اور فطرتی خیال کو ختم کر دیا۔ قارئین کو نبی کریمa کی عصمت و عظمت کا اعتراف کرنے کے بعد ان امور میں فرق کرنا چاہیے: محض کسی چیز کا خیال آ جانا، برائی کا باقاعدہ ارادہ کرنا اور پھر اس کو نافرمانی سمجھ کر اس سے باز رہنے کا ارادہ کرنا، برائی کا عزم کرنا اور اس کا ارتکاب کرنے کی کوشش میں رہنا، عملی طور پر برائی کرنا۔ مؤخر الذکر تین امور عصمت کے منافی ہیں، پہلی چیز قابل مؤاخذہ نہیں ہے، بالخصوص جب اس کے اثر کو نیکی کے ذریعے زائل کر دیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔