Blog
Books
Search Hadith

اس چیز کا بیان کہ اس شخص کو حد نہیں لگائی جائے گی، جو کسی حد کا اقرار تو کرے اور اس کا نام نہ لے

۔ (۶۷۱۰)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوِہٖ (وَفِیْہِ) فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((خَرَجْتَ مِنْ مَنْزِلِکَ تَوَضَّأْتَ فَاَحْسَنْتَ الْوُضُوْئَ وَصَلَّیْتَ مَعَنَا؟)) قَالَ الرَّجُلُ: بَلٰی، قَالَ: ((فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ غَفَرَلَکَ حَدَّکَ أَوْ ذَنْبَکَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۵۱۶)

۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، پھر سابقہ حدیث سے ملتی جلتی حدیث بیان کی، البتہ اس میں ہے: کیا اس طرح ہوا کہ تو اپنے گھر سے نکلا، وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا اور ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟ اس آدمی نے کہا: جی کیوں نہیں، ایسے ہی کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے تیرا گناہ یا تیری حد کو معاف کر دیا ہے۔
Haidth Number: 6710
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۷۱۰) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۷۶۵ (انظر: ۲۲۱۶۳)

Wazahat

فوائد:… اس حدیث ِ مبارکہ کا صحیح مسلم میں پورا متن درج ذیل ہے: سیدنا ابو امامہ b سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بَیْنَمَا رَسُولُ اللّٰہِV فِی الْمَسْجِدِ وَنَحْنُ قُعُودٌ مَعَہُ إِذْ جَاء َ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْہُ عَلَیَّ فَسَکَتَ عَنْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَعَادَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْہُ عَلَیَّ فَسَکَتَ عَنْہُ وَأُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ فَلَمَّا انْصَرَفَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو أُمَامَۃَ: فَاتَّبَعَ الرَّجُلُ رَسُولَ اللّٰہِV حِینَ انْصَرَفَ وَاتَّبَعْتُ رَسُولَ اللَّہِV أَنْظُرُ مَا یَرُدُّ عَلَی الرَّجُلِ، فَلَحِقَ الرَّجُلُ رَسُولَ اللّٰہِV فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْہُ عَلَیَّ، قَالَ أَبُو أُمَامَۃَ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أَرَأَیْتَ حِینَ خَرَجْتَ مِنْ بَیْتِکَ أَلَیْسَ قَدْ تَوَضَّأْتَ فَأَحْسَنْتَ الْوُضُوئَ؟)) قَالَ: بَلٰییَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((ثُمَّ شَہِدْتَ الصَّلَاۃَ مَعَنَا؟)) فَقَالَ: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((فَإِنَّ اللّٰہَ قَدْ غَفَرَ لَکَ حَدَّکَ أَوْ قَالَ ذَنْبَکَ۔))… رسول اللہ a مسجد میں تشریف فرما تھے، ہم بھی آپ a کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے حدّ والے جرم کا ارتکاب کیا ہے، لہذا آپ مجھ پر وہ حد قائم کریں، رسول اللہa خاموش رہے، اس نے پھر وہی بات دوہرائی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں حدّ کو پہنچا ہوں، لہذا آپ اس کو مجھ پر قائم کریں، لیکن آپ a پھر خاموش رہے، اتنے میں نماز کھڑی کر دی گئی، جب آپ a نماز سے فارغ ہو کر چلے تو وہ آدمی، آپ a کے پیچھے چل پڑا، میں (ابو امامہ) بھی آپ a کے پیچھے چل دیا، تاکہ دیکھ سکوں کہ آپ a اس کو کیا جواب دیتے ہیں، پس وہ آدمی آپ a کو جا ملا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے حدّ والے گناہ کا ارتکاب کیا ہے، لہذا آپ اس حدّ کو مجھ پر نافذ کریں، رسول اللہ a نے اس سے فرمایا: ’’اس بارے میں بتلا کہ جب تو گھر سے نکلا ہے تو کیا تو نے اچھے انداز میں وضو نہیں کیا تھا؟‘‘ اس نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپa نے فرمایا: ’’پھر تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپa نے فرمایا: ’’پس بیشک اللہ تعالی نے تیری حدّ یا تیرے گناہ کو معاف کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: ۴۹۶۶) جب کوئی آدمی نبی کریمa کے سامنے اپنے جرم اور گناہ کا اظہار کرتے تو آپa اس سے استفساراً جو سوال کرتے، وہ اس کے ذکر کردہ جرم سے کم گناہ والے امور سے متعلقہ ہوتے، مثلا: پچھلے باب میں مذکورہ احادیث کے مطابق جب آدمی نے آپ a کے سامنے زنا کا اعتراف کیا تو آپa نے اس سے فرمایا: ’’شاید تونے آنکھ سے اشارہ کیا ہو، یا بوسہ لیا ہو، یا دیکھا ہو۔‘‘ غور کریں کہ ایک آدمی اپنے بارے میں زنا کا اقرار کرتا ہے، لیکن آپa اس کو کم گناہ والے امور کی طرف لاتے ہیں۔ بالکلیہی معاملہ یہاں ہے کہ اس آدمی نے حدّ کا تو ذکر کیا، لیکن حدّ کے سبب کی تفصیل بیان نہیں کی اور آپa نے اس سبب کے بارے میں دریافت نہ کرنے کو ترجیح دی، تاکہ اس کے جرم پر پردہ پڑا رہے اور اس تاویل کی بھی گنجائش ہے کہ معلوم نہیں اس آدمی نے کون سا گناہ کیا ہے اور کیا اس پر حدّ بھی لگتی ہے یا نہیں، لیکن اگر تفصیل پوچھی جائے تو پردہ پوشی کے منافی ہے، سو خاموشی کو ترجیح دی گئی۔ آج کل مربی ّ لوگوں کا انداز آپ a کے اس انداز سے بالکل مختلف ہے، سب سے بڑی کمییہ ہے کہ ان کا اپنا نیکی و تقوی کا معیار بہت کم ہوتا ہے، ان کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ماتحت افراد امورِ خیر کا مجسمہ بن کر نظر آئیں،لیکن اگر وہ خود عمل نہ بھی کریں تو خیر ہے، ایک سرپرست یہ چاہتا تھا کہ اس کے شاگردوں میںیہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ وہ اذان کے فوراً بعد نماز کی تیاری میں لگ جائیں اور سنتوں اور نفلوں کا بھی اہتمام کریں اور فجر کی نماز کے لیے جلدی بیدار ہو جائیں، لیکن وہ خود دفتر میں بیٹھا رہتا، جب اقامت ہونے لگتی تو وضو کرنے کے لیے گھر چلا جاتا اور جماعت کی تیسری چوتھی رکعت میں آ کر ملتا، اسی طرح اس کی اپنی فجر کی کئی نمازیں نیند کی نظر ہو جاتیں، لیکن طلبہ کی سستی پر ان پر خوب برستا تھا،پھر جب اِن تربیت کرنے والے افراد کو کسی کے ہلکے سے جرم کا پتہ چلتا ہے تو یہ مجرم کے سامنے بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کر کے اس سے کسی بڑے گناہ کا اعتراف کروانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔