Blog
Books
Search Hadith

اس شخص کا بیان جو مَحرم عورت سے منہ کالا کرے یا کسی چوپائے سے برائی کرے یا قومِ لوط والا عمل کر بیٹھے

۔ (۶۷۳۲)۔ وَعَنْہُ اَیُضًا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ وَقَع عَلٰی بَہِیْمَۃٍ فَاقْتُلُوْہُ وَاقْتُلُوْا الْبَہِیْمَۃَ۔))۔ (مسند احمد: ۲۴۲۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو جانور پر واقع ہو، اسے بھی قتل کر دو اور جانور کو بھی۔
Haidth Number: 6732
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۷۳۲) تخریج: اسنادہ جیّد۔ أخرجہ ابوداود: ۴۴۶۴، والترمذی: ۱۴۵۵ (انظر: ۲۴۲۰)

Wazahat

فوائد:… یہ حدیث بیان کرنے کے بعد عکرمہ نے کہا: قُلْتُ لَہُ: مَا شَأْنُ الْبَہِیمَۃِ؟ قَالَ: مَا أُرَاہُ قَالَ ذَلِکَ إِلَّا أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُؤْکَلَ لَحْمُہَا وَقَدْ عُمِلَ بِہَا ذَلِکَ الْعَمَلُ۔… ’’میں نے سیدنا ابن عباس b سے کہا: جانور کو قتل کرنے کی کیا وجہ ہے؟انھوں نے کہا: میرا خیال تو یہی ہے کہ آپ a نے ناپسند کیا کہ اس کا گوشت کھایا جائے، جبکہ اس کے ساتھ یہ گندا کام کیا گیا ہے۔ (ابوداود: ۴۴۶۴، ترمذی: ۱۴۵۵) اس حدیث کے برعکس سیدنا عبد اللہ بن عباسdکا اپنا قول یہ ہے: لیس علی الذییأتی البھیمۃ حدّ۔ … جو آدمی جانورسے یہ برا کام کرتا ہے، اس پر کوئی حد نہیں ہے۔ (ابو داود: ۴۴۶۵، ترمذی: ۱۴۵۵) عمرو بن ابی عمرو راوی اس حدیث کو مرفوعا بیان کرتا ہے اور عاصم بن بہدلہ سیدنا ابن عباس b پر موقوفاً بیان کرتاہے، امام ترمذی نے موقوف روایت کے حق میں کہا: وہذا أصح من الحدیث الأول والعمل علی ہذا عند أہل العلم وہو قول أحمد وإسحق۔ … یہ حدیث پہلییعنی مرفوع حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے اور امام احمد اور امام اسحاق کا بھییہی قول ہے۔ اما م ابو داود نے کہا: حدیثُ عاصم یضعِّف حدیثَ عمرو بن ابی عمرو۔ … عاصم کی موقوف حدیث، عمرو بن ابو عمرو کی حدیث کو ضعیف کر رہی ہے۔ شیخ البانی کہتے ہیں: لیکن امام بیہقی نے موقوف کو ترجیح دینے والی اس رائے کا بہت عمدہ تعاقب کیا، انھوں نے کہا: کئی سندوں سے عکرمہ سے یہ حدیث ہمیں بیان کی گئی ہے، میرا خیال ہے کہ عمرو بن ابی عمرو حفظ و ضبط میں عاصم بن بہدلہ سے کم تو نہیں ہے، جبکہ ایک جماعت نے عمرو بن ابی عمرو کی متابعت بھی کر رکھی ہے اور اکثر ائمہ کے نزدیک عکرمہ ثقات و اثبات راویوں میں سے ہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں: تحقیقیہی ہے کہ عمرو بن ابو عمرو، عاصم بن بھدلہ سے کم مرتبہ نہیں ہے، بلکہ ممکن ہے کہ وہ حدیث کے معاملے میں اس سے اچھا روای ہو، ان دونوں راویوں کے ترجمہ سے اس حقیقت کااندازہ ہو گا۔ حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں عمرو کے بارے میں ’’ثقۃ ربما وھم‘‘ کہا اور عاصم کے بارے میں ’’صدوق لہ اوھام‘‘ کہا۔ امام ذہبی نے عاصم کے بارے میں کہا: صدوق یھم، امام بخاری اور امام مسلم نے اس سے مقروناً روایت لی ہے۔ اور عمرو کے بارے میں کہا: یہ ’’صدوق‘‘ ہے، اس کی روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے اصول میں موجود ہے۔ پس واضح ہوا کہ عمرو راوی، عاصم سے قوی ہے اور تعارض کے وقت اسی عمرو کی حدیث راجح ہو گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ عمرو کی حدیث مرفوع ہے اور عاصم کی موقوف اور روایت کو رائے پر ترجیح دیتے وقت اہل الحدیث کے قواعدکے مطابق یہ بات درست نہیںہے کہ موقوف روایت کی وجہ سے مرفوع کو ضعیف قرار دیا جائے، احناف کے بر خلاف۔ پھر امام بیہقی نے جن متابعات کی طرف اشارہ کیا ہے، ان سے عمرو کی حدیث کو قوت ملتی ہے، مجھے ان میں سے دو متابعات ملی ہیں: (اول)… داود بن حصین عن عکرمۃ بہ، امام ابن ماجہ، امام دارقطنی، امام بیہقی اور امام احمد نے اس سند کے ساتھ اس حدیث کو بیان کیا ہے، اس سند میں ابراہیم اشہلی بھی ضعیف ہے اور ابن حصین، عکرمہ سے روایت لینے میں ضعیف ہے۔ (دوم)… عباد بن منصور عن عکرمۃ بہ، امام حاکم، امام بیہقی اور امام ابن عساکر نے اس کو روایت کیا ہے۔اس میں عباد بن منصور صدوق ہے، وہ تدلیس بھی کرتا تھا اور اس کو آخر میں اختلاط بھی ہو گیا تھا۔ پھر عمرو بن ابی عمرو کی حدیث کا ایک مرفوع شاہد بھی ہے، جو سیدنا ابوہریرہb سے مروی ہے، امام ابو یعلی نے اپنی مسند میں اس کو بیان کیا، اس کے راوی ثقہ اور معروف ہیں، ما سوائے عبد الغفار بن عبد اللہ کے، جبکہ ابن ابی حاتم نے اس کا ذکر کر کے اس پر کوئی جرح اور تعدیل نقل نہیں، ظن غالب یہی ہے کہ امام ابن حبان نے اس کو ’’الثقات‘‘ میں ذکر کیا ہے۔حافظ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں اس حدیث کو ابو یعلی کی طرف منسوب کرنے کے بعد کہا: اس میںمحمد بن عمرو ہے، اس کی حدیث حسن ہے اور باقی راوی ثقہ ہیں، البتہ حافظ ابن حجر نے ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں کہا: ابو یعلی نے کہا: ہمیںیہ بات پہنچی ہے کہ عبد الغفار نے اس سے رجوع کر لیا تھا، اور ابن عدی نے کہا کہ لوگوں نے اس کو تلقین کی تھی۔ (ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل: ۸/ ۱۷) اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ اس باب کی حدیث نمبر (۶۷۳۲) صحیح ہے کہ نبی کریمa نے فرمایا کہ: ’’جو جانور پر واقع ہو، اسے بھی قتل کر دو اور جانور کو بھی۔‘‘