Blog
Books
Search Hadith

ان امور کا بیان کہ چوری میں پہلے کون سا ہاتھ کاٹا جائے، کاٹنے کا جگہ، ہاتھ کاٹ کر چور کی گردن میں لٹکانا، بار بار چوری کرنے والے کی سزا اور اس آیت کے بارے میںمفسرین کے اقوال: ’’اور چوری کرنے والا مرد اور عورت،پس ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دو‘‘

۔ (۶۷۶۶)۔ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِیٍّ الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ: سَمِعْتُ حَجَّاجًا یَذْکُرُ عَنْ مَکْحُوْلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُحَیْرِیْزٍ قَالَ: قُلْتُ لِفَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ: اَرَاَیْتَ تَعْلِیْقَیَدِ السَّارِقِ فِی الْعُنُقِ، أَمِنَ السُّنَّۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُتِیَ بِسَارِقٍ فَأَمَرَ بِہِ فَقُطِعَتْ یَدُہُ ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَعُلِّقَتْ فِی عُنُقِہِ، قَالَ حَجَّاجٌ: وَکَانَ فَضَالَۃُ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ، قَالَ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰن عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اَحْمَدَ: قُلْتُ لِیَحْیَی بْنِ مَعِیْنٍ: سَمِعْتَ مِنْ عُمَرَ بْنِ عَلِیٍّ الْمُقَدَّمِیِّ شَیْئًا؟ قال: أَیُّ شَیْئٍ کَانَ عِنْدَہُ؟ قُلْتُ: حَدِیْثُ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ فِی تَعْلِیْقِ الْیَدِ، فَقَالَ: لا، حَدَّثَنَا عَفَّانُ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۴۴)

۔ عبد الرحمن بن محیریز سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا چور کا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس کی گردن میں لٹکانا سنت ہے، اس بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، کیونکہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، پس اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا اور وہ ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا گیا۔ حجاج کہتے ہیں: سیدنا فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر درخت کے نیچے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی تھی۔ ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن معین سے کہا: کیا آپ نے عمر بن علی مقدمی سے کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے کہا: ان کے پاس کیا تھا جو میں سنتا؟ میں نے کہا: سیدنا فضالہ بن عبید والی وہ حدیث، جس میں چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کی گردن میں لٹکانے کا ذکر ہے، انہوں نے کہا: نہیں، البتہ عفان نے ہمیں ان سے بیان کیا ہے۔
Haidth Number: 6766
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۷۶۶) تخریج: اسنادہ ضعیف، حجاج بن ارطاۃ لیس بذاک القوی، وھو مدلس وقد عنعنہ، أخرجہ ابوداود: ۴۴۱۱، والترمذی: ۱۴۴۷، والنسائی: ۸/ ۹۲، وابن ماجہ: ۲۵۸۷ (انظر: ۲۳۹۴۶)

Wazahat

فوائد:… یہ حدیث ضعیف ہے اور کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ہے، جو اس بات پر دلالت کرے کہ چور کا کٹا ہوا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب سیدنا حارث بن حاطبb سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِV أُتِیَ بِلِصٍّ فَقَالَ: ((اقْتُلُوہُ)) فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّمَا سَرَقَ، فَقَالَ: ((اُقْتُلُوہُ)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّمَا سَرَقَ، قَالَ: ((اِقْطَعُوا یَدَہُ)) قَالَ ثُمَّ سَرَقَ فَقُطِعَتْ رِجْلُہُ ثُمَّ سَرَقَ عَلَی عَہْدِ أَبِی بَکْرٍB حَتّٰی قُطِعَتْ قَوَائِمُہُ کُلُّہَا ثُمَّ سَرَقَ أَیْضًا الْخَامِسَۃَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍB: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِV أَعْلَمَ بِہٰذَا حِینَ قَالَ ((اُقْتُلُوہُ)) ثُمَّ دَفَعَہُ إِلَی فِتْیَۃٍ مِنْ قُرَیْشٍ لِیَقْتُلُوہُ مِنْہُمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ وَکَانَ یُحِبُّ الْإِمَارَۃَ فَقَالَ أَمِّرُونِی عَلَیْکُمْ فَأَمَّرُوہُ عَلَیْہِمْ، فَکَانَ إِذَا ضَرَبَ ضَرَبُوہُ حَتّٰی قَتَلُوہُ۔ رسول اللہa کے پاس ایک چور لایا گیا، آپa نے فرمایا: ’’اس کو قتل کردو۔‘‘ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے تو چوری کی ہے، آپa نے پھر فرمایا: ’’اس کو قتل کر دو۔‘‘ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے چوری کی ہے، آپ a نے فرمایا: ’’تو پھر اس کا ہاتھ کاٹ دو۔‘‘ اس نے پھر چوری کی تو اس کا پاؤں کاٹ دیا گیا، پھر اس نے سیدنا ابوبکر b کے زمانے میں چوریاں کیں،یہاں تک کہ اس کے تمام ہاتھ پاؤں کو کاٹ دیا گیا، پھر جب اس نے پانچویں بار چوری کی تو سیدنا ابو بکر b نے کہا: جب رسول اللہ a نے اس کو قتل کرنے کی بات کی تھی تو آپ a اس کو زیادہ جاننے والے تھے، پھر سیدنا ابو بکر b نے اس چور کو قریشی نوجوانوں کے سپرد کیا، تاکہ وہ اس کو قتل کر دیں، ان میں سیدنا عبد اللہ بن زبیرb بھی تھے، جو کہ امارت کو پسند کرتے تھے، اس لیے انھوں نے ان نوجوانوں سے کہا: تم اس معاملے میں مجھے اپنا امیر بناؤ، پس انھوں نے اس کو امیر بنایا، پس جب وہ ضرب لگاتا تو تب دوسرے نوجوان ضرب لگاتے، یہاں تک کہ انھوں نے اس کو قتل کر دیا۔ (نسائی:۴۹۸۰) آپa کے فرمان ’’اس کو قتل کر دو‘‘ سے آپ کا مقصود یہ نہ تھا کہ اس کو واقعی قتل کر دیا جائے، بلکہ یہ آپa کی پیش گوئی تھی کہ اس کا انجام کار قتل ہو گا، جو اس کے حق میں پوری ہوئی،یہ بھی ممکن ہے کہ آپ a کو بذریعۂ وحی بتا دیا گیا ہو کہ یہ شخص باز نہیں آئے گا اور بالآخر اسے قتل کرنا پڑے گا۔صحابۂ کرام e نے آپ a کے حکم کی تعمیل میں تردد اس لیے کیا کہ آپ a نے خود چور کی سزا ہاتھ کاٹنا بتائی تھی،یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ a کے اندازِ گفتگو سے یہ اندازہ لگا رہے ہوں کہ آپa کا مقصود قتل نہیں ہے۔ پہلی چوری پر چور کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا، اس کے بعد جمہور اہل علم کے نزدیک دوسری چوری پر بایاں پاؤں، تیسری چوری پر بایاں ہاتھ اور چوتھی چوری پر دایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا، اگروہ پانچویں بار چوری کرے تو اس کے بارے میں دو آراء ہیں، ایک کہ اس کو قتل کر دیا جائے گا، جیسا کہ سیدنا ابوبکر b نے کیا اور دوسری کہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب! چور کا ہاتھ اس کی کلائی سے کاٹا جائے گا۔