Blog
Books
Search Hadith

شراب کی حرمت، اس کو پینے والے پر لعنت کرنے اور اس کے آخرت میں شراب سے محروم ہو جانے کا بیانا، الا یہ کہ وہ توبہ کر لے

۔ (۶۷۷۰)۔ ) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْخَمْرَ وَالْمَیسِرَ وَالْکُوْبَۃَ۔))، وَقَالَ: کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ۔ (مسند احمد: ۲۶۲۵)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب، جوا اور نرد (یا شطرنج یا آلۂ موسیقی) کو حرام قرار دیا ہیَ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
Haidth Number: 6770
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۷۷۰) تخریج: اسنادہ صحیح، أخرجہ البیھقی: ۱۰/ ۲۲۱ (انظر: ۲۶۲۵)

Wazahat

فوائد:… ’’کُوْبَۃ‘‘اس لفظ کے تین معانی کیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی مراد ہو سکتا ہے۔ ارشاد ِربانی ہے : ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْس’‘ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ } (المائدہ:۹۰) ’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب، جوا، تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر،یہ سب گندی چیزیں، شیطانی کام ہیں، ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو۔‘‘ شراب کی حرمت قطعی اور ابدی ہے، قرآن و حدیث کے کئی دلائل موجود ہیں، شراب کی تعریف سمجھنے کے لیے درج ذیل بحث کا مطالعہ کریں: عربی لغت اور عرف عام میں ہر نشہ آور چیز اور مشروب کو ’’خَمْر‘‘ کہتے ہیں، احادیث ِ صحیحہ میں بھی ہر نشہ آور اور چیز کو ’’خَمْر‘‘ کہا گیا ہے۔ حَرَامٌ۔)) (مسلم) … ’’ہر نشہ آور چیز ’’خَمْر‘‘ ہے اور ہر ’’خَمْر‘‘ حرام ہے۔‘‘ نیز سیدنا عمر b نے کہا: وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ۔ (بخاری، مسلم) … ’’خَمْر‘‘ا س چیز کو کو کہتے ہیں جو عقل پر پردہ ڈال دے۔ سیدنا ابو موسیb کہتے ہیں: بَعَثَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلٰی الْیَمَنِ، قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ بِھَا أَشْرِبَۃً فَمَا أَشْرَبُ وَمَا أَدَعُ؟ قَالَ: ((وَمَا ھِیَ؟)) قُلْتُ: الْبِتْعُ وَالْمِزْرُ۔ قَالَ: ((وَمَا الْبِتْعُ وَالْمِزْرُ؟)) قَالَ: أَمَّاالْبِتْعُ، فَنَبِیْذُ الْعَسَلِ، وَأَمَّا الْمِزْرُ فَنَبِیْذُ الذُّرَۃِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِV: ((لَاتَشْرَبْ مُسْکِراً فَإِنِّی حَرَّمْتُ کُلَّ مُسْکِرٍ۔)) … رسول اللہ a نے مجھے یمن کی طرف بھیجا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہاں کچھ (مخصوص) مشروبات پائے جاتے ہیں، میں ان میں سے کون سے پی سکتا ہوں اور کون سے ترک کروں؟ آپa نے فرمایا: ’’وہ کونسے (مشروبات) ہیں؟‘‘ میں نے کہا: وہ’’بتع‘‘ اور ’’مزر‘‘ ہیں۔ آپ a نے پوچھا: ’’بتع‘‘ اور ’’مزر‘‘ کسے کہتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا: شہد کی نبیذ کو ’’بتع‘‘ اور مکئی کی نبیذ کو ’’مزر‘‘ کہتے ہیں۔ رسول اللہa نے فرمایا: ’’بس، نشہ آور مشروب نہیں پینا، کیونکہ میں نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ (نسائی: ۲/ ۳۲۶، صحیحہ: ۲۴۲۴، وأخرج مسلم نحوہ) احناف نے اس مسئلے میں ساری امت سے اختلاف کیا ہے اور ’’خَمْر‘‘ سے مراد صرف وہ شراب لی ہے، جو انگور سے تیار کی جائے، بلکہ مزید قیود بھی لگا دی ہیں کہ انگور کا نچوڑا ہوا پانی آگ پر گرم کیے بغیر دو ثلت سے کم خشک ہو جائے، اس میں جھاگ پیدا ہو جائے اور وہ نشہ دے تو اسے ’’خَمْر‘‘ کہا جائے گا۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا نشہ آور مشروب خمر نہیں کہلاتا، مثلا: انگور کے علاوہ کسی اور پھل کا نچوڑ ہو یا نچوڑ تو انگور کا ہو مگر اسے آگ پر گرم کر کے خشک کیا گیا ہو یا دو ثلث سے زائد خشک ہو جائے، خواہ آگ کے بغیر ہی ہو، ان تمام صورتوں میں ان کے نزدیک اسے ’’خَمْر‘‘ نہیں کہا جائے گا، خواہ وہ نشہ دیتا ہو، البتہ اسے مُسْکِر (نشہ دینے والا) کہا جائے گا۔احناف کے ہاں اس مخصوص ’’خَمْر‘‘ کا ایک گھونٹ بھی حرام ہے، مگر عام مسکرات نشے کی حد سے کم پینا جائز ہیں، احناف کی اس توجیہ کا ثبوت شریعت تو کجا عقل سلیم بھی اس انکار کرتی ہے، کیونکہ شراب کی حرمت کی وجہ تو نشہ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ شراب اور دیگر نشہ آور مشروبات کے حکم میں فرق کیا جائے؟ سالم بن عبد اللہ بن عمر اپنے باپ سیدنا عبد اللہ b سے روایت کرتے ہیںکہ نبی کریمaنے فرمایا: ((حَرَّمَ اللّٰہُ الْخَمْرَ، وَکُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ۔)) …’’اللہ تعالیٰ نے شراب اور ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘(نسائی: ۲/ ۳۳۳، صحیحہ: ۱۸۱۴، وروی مسلم: ۶/ ۱۰۰ وغیرہ نحوہ) امام البانیk نے کہا: یہ حدیث ان قطعی دلائل میں سے ہے جو ہر نشہ دینے والی چیز کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔ وہ انگور سے بنائی گئی ہو یا کھجور اور مکئی وغیرہ سے یا اس کی مقدار قلیل ہو یا کثیر۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مختلف چیزوں سے تیار کی جانے والی شراب اور اس کی معمولییا غیر معمولی مقدار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ (صحیحہ: ۱۸۱۴) امام البانیk نے (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ)میں اس ضعیف حدیث کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا: ((حرمت الخمر لعینِھا قلیلھا و کثیرھا، والسُّکر من کل شراب۔)) … ’’شراب اپنی ذات کی بنا پر حرام ہے، وہ تھوڑی ہو یا زیادہ اور ہر مشروب سے نشہ حرام ہے۔‘‘ احناف نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ انگوروں سے بنائی جانے والی نشہ آور چیز کو صرف شراب کہتے ہیں،جس کی قلیل مقدار بھی حرام ہوتی ہے اور کثیر بھی۔ جو نشہ آور مشروبات گندم، جو، شہد اور مکئی سے تیار کیے جاتے ہیں، وہ حلال ہیں۔ صرف ان کی اتنی مقدار پینا حرام ہے، جس سے نشہ پیدا ہو جائے۔ (معمولی مقدار پی لینے میں کوئی حرج نہیں)۔ لیکنیہ مذہب باطل ہے اور صحیح و صریح اور یقینی و قطعی احادیث کے مخالف ہے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس b بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ((کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ وَکُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ۔)) (مسلم) … ’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘ اس حدیث کے کثیر شواہد موجود ہیں، امام زیلعی وغیرہ نے ان کا ذکر کیا ہے، میں نے (ارواء الغلیل: ۸/۴۰۔۴۵) میں بعض کا ذکر کیا ہے۔ بلکہ شیخ علی قاری حنفی نے تو (شرح مسند الامام ابی حنیفۃ: صـ ۵۹) میں کہا: قریب ہے کہ یہ حدیث متواتر ثابت ہو جائے۔ آپ کو صاحب ِ ہدایہ کے اس قول سے دھوکہ نہیں ہونا چاہیے: (اس حدیث پر یحییٰ بن معین نے طعن کیا)۔ کیونکہیہ قول بے بنیاد ہے اور ابن معین سے اس کی کوئی اصل نہیں ہے، جیسا کہ امام زیلعی نے کہا اور ابن معین کا مرتبہ اس سے بلند ہے کہ اس حدیث کی صحت ان سے مخفی رہ جائے۔ نیز ارشادِ نبوی ہے: ((مَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ۔)) … ’’جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ دے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہو جاتی ہے۔‘‘ یہ حدیث تقریبا آٹھ صحابہ سے مروی ہے، امام زیلعی نے (نصب الرایۃ: ۴/ ۳۰۱۔۳۰۶) تمام سندوں کا تذکرہ کیا ہے، میں نے (ارواء الغلیل: ۲۳۷۵، ۲۳۷۶) میں بعض کا ذکر کیا ہے اور امام نسائی نے اپنی سنن میں بعض روایات کا ذکر کیا اور پھر کہا: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نشہ کی کثیر مقدار بھی حرام ہے اور قلیل بھی۔ لیکن اپنے حق میں بعض دھوکہ بازوں نے کہا: جس شراب کی زیادہ مقدار سے نشہ پیدا ہوتا ہے، تو اس کی اتنی کم مقدار حلال ہوتی ہے، جس سے نشہ پیدا نہیں ہوتا۔ تنبیہ:… ہم نے شراب کے بارے میں احناف کا جو مسلک بیان کیا ہے، اس کو امام ابوحنیفہ اور صاحبین سے بیان کرنے والے امام طحاوی ہیں، امام محمد نے بھی (الآثار: صـ ۱۴۸) میںیہ مسلک بیان کیا اور اس کو برقرار رکھا۔ لیکن علامہ ابو الحسنات لکھنوی نے (التعلیق الممجد علی مؤطا محمد) میں کہا کہ امام محمد ہر نشہ آور چیز کی قلیل اور کثیر مقدار کے حرام ہونے کے قائل ہیں، جیسا کہ جمہور کا مذہب ہے ۔ شاید اس مسئلہ میں امام محمد کے دو اقوال ہوں، جن میں سے دوسرا قول احادیث ِ صحیحہ کے موافق ہونے کی وجہ سے درست ہے۔ اس ضعیف حدیث سے احناف نے جو استدلال کر کے شراب کے بارے میں اپنا مسلک پیش کیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شراب انگوروں کے علاوہ کسی اور چیز سے تیار کی جائے، اس کی اتنی مقدار پینا جائز ہے جس سے نشہ پیدا نہیں ہوتا، نیز اگر ایسی شراب سے نشہ آ بھی جائے تو پینے والے کو حدّ نہیں لگائی جا سکتی۔ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کا یہی مسلک ہے، جیسا کہ (الھدایہ: ۸/ ۱۶۰) سے معلوم ہوتا ہے، لیکن صاحب ِ ہدایہ نے کہا: زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کو حدّ لگائی جائے گی، جیسا کہ امام محمد کا خیال ہے، جن کا دوسرا قول جمہور کے مسلک کے موافق ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ۱۲۲۰)