Blog
Books
Search Hadith

اللہ تعالی کے حکم سے جادوکی تاثیر کا اور اس آدمی کی وعید کا بیان جو اُس کے حکم کے بغیر اس کی تصدیق کرتا ہو

۔ (۶۸۰۶)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: سَحَرَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلٌ مِنَ الْیَہُوْدِ، قَالَ: فَاشْتَکٰی لِذَالِکَ أَیَّامًا، قَالَ: فَجَائَ جِبْرِیْلُ فَقَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْیَہُوْدِ سَحَرَکَ عَقَدَ لَکَ عُقَدًا عُقَدًا فِیْ بِئْرٍ کَذَا وَکَذَا، فَأَرْسِلْ إِلَیْہَا مَنْ یَجِیْئُ بِہَا، فَبَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَاسْتَخْرَجَہَا فَجَائَ بِہَا فَحَلَّلَہَا، قَالَ: فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ، فَمَا ذَکَرَ لِذَالِکَ الْیَہُوْدِیِّ وَلَا رَآہ فِیْ وَجْہِہِ قَطُّ حَتّٰی مَاتَ۔ (مسند احمد: ۱۹۴۸۲)

۔ سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ یہودیوں میں سے ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جادو کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وجہ سے کئی دن بیمار رہے، بالآخر جناب جبریل علیہ السلام نے آ کر کہا : یہودیوں میں سے ایک آدمی نے آپ پر جادو کیا ہے اور اس مقصد کے لیے جادو کی گرہیں لگائی ہیں، جادوں کایہ عمل فلاں کنویں میں پڑا ہے، آپ کسی آدمی کو بھیجیں جو اس عمل کو نکال کر لے آئے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھیجا، وہ اس کو نکال کر لے آئے اور ان گرہوںکو کھول دیا،یوں لگا جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو رسی سے کھول دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس چیز کا نہ اس یہودی سے ذکر کیااور نہ اس کے چہرے کی طرف دیکھا،یہاں تک کہ وہ مر گیا۔
Haidth Number: 6806
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۸۰۶) تخریج: حدیث صحیح بغیر ھذہ السیاقۃ، وھذا اسناد فیہ تدلیس الاعمش، وسیاقہ الصحیح تقدم برقم (۶۸۰۳)، أخرجہ النسائی: ۷/ ۱۱۲(انظر: ۱۹۲۶۷)

Wazahat

فوائد:… ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے حکم سے جادو کا اثر ہو سکتا ہے اور یہ اثر نبی کریمa پر بھی ہو گیا تھا۔ ارشادِ باری تعالی ہے: {وَمَا ھُمْ بِضَارِّیْنَ بِہٖمِنْاَحَدٍاِلَّابِاِذْنِاللّٰہِ} … ’’اور وہ جادو گر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، مگر اللہ تعالی کی مرضی کے ساتھ۔‘‘ (سورۂ بقرہ: ۱۰۲) اس آیت کے مطابق اللہ تعالی کی مشیت کے مطابق کسی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، اللہ تعالی نے کسی کی بھی تخصیص نہیں کی۔ بعض بدعتی لوگوں نے ان احادیث کا انکار کر دیا ہے، جن میں نبی کریمa پر جادو کے اثر انداز ہو جانے کا بیان ہے، ان کا نظریہیہ ہے کہ یہ چیز منصب ِ نبوت کے لائق نہیں ہے، اس سے تشکیک کی راہ کھلتی ہے اور شریعت کو نا قابل اعتبار ٹھہراتی ہے۔ لیکنیہ سارے خیالات مردود ہیں، ہم دلائل و براہین کے محتاج ہیں، جب اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ارشادات و فرمودات میں نبی کریمa کی عصمت، صداقت اور حقانیت بیان کی گئی تو ہم نے تسلیم کیا اور جب ان ہی دلائل میں ان عوارض کو بیان کیا گیا، جو نبی کریمa کو لاحق ہو سکتے ہیں تو ہمیں ان کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ دراصل بات یہ ہے کہ جیسے انبیاء و رسل کو دیگر انسانی عوارض لاحق ہوتے ہیں،یا ہو سکتے ہیں، اسی طرح وہ جادو سے بھی متأثر ہو سکتے ہیں، جیسا کہ فرعون کے دربار میں موسیg پر جادو کا اثر ہو گیا تھا، ارشادِ باری تعالی ہے: {قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْیُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی (۶۶) فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖخِیْفَۃً مُّوْسٰی} (۶۷) ’’موسیg نے کہا: نہیں، تم ہی پہلے ڈالو، اب تو موسیg کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں۔ پس موسی (g) نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔‘‘(سورۂ طہ: ۶۶) اسی طرح یہودی لوگوں نے آپ a پر جادو کیا، جس کے کچھ اثرات آپ a نے محسوس کیے، اس سے بھی منصب ِ نبوت پر کوئی حرف نہیں آیا، کیونکہ اس سے کارِ نبوت متاثر نہیں ہوا، اللہ تعالی نے اپنے نبی کی حفاظت فرمائی اور جادو سے وحییا فریضۂ رسالت کی ادائیگی متاثر نہیں ہونے دی۔ جیسے دشمنوں نے غزوۂ احد کے موقع پر آپ a کو خاصا جسمانی نقصان پہنچایا، اسی طرح آپ a کا مالی نقصان بھی ہو جاتا ہے، آپ a بیمار بھی ہو جاتے تھے، ایک دفعہ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے زخمی ہو گئے، آپa کو زہر دیا گیا اور اس سے آپ a کو تکلیف ہوئی، لوگوں کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ a پریشان ہو جاتے تھے، اسی طرح جادو سے بھی آپ a کچھ متأثر ہو گئے تھے۔ بہرحال ہم قرآن حکیم اور احادیث ِ صحیحہ کے محتاج ہیں اور ان پر ہی اپنے نظریات کی بنیاد رکھتے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ a نے جادو کا عمل نکالنے کے لیے سیدنا علیb کو بھیجا تھا اور بعض میں ہے کہ آپ a خود تشریف لے گئے تھے، ان روایات میں جمع و تطبیق کییہ صورت ممکن ہے کہ پہلے آپ a نے سیدنا علیb کو بھیجا ہو اور پھر آپ a خود ان کے پیچھے روانہ ہو گئے ہوں، اس طرح سیدنا علیb نے وہ عمل کنویں سے نکالا ہو اور آپ a نے اس کا مشاہدہ کر کے اس کو ختم کیا ہو اور پھر سیدنا علیb کو یہ حکم دیا ہو کہ وہ اس کو دفنا دیں۔ آپa نے لبید بن عاصم سے انتقام نہیں لیایا اس کو سزا نہیں دی، ممکن ہے کہ فتنہ سے بچنے کے لیے اس کو سزا نہ دی گئی ہو، کیونکہیہ شخص بنو زریق قبیلے سے تھا، جو کہ خزرج قبیلے کی ایک شاخ تھی اور اسلام سے پہلے بہت زیادہ انصاریوں اور یہودیوں کے درمیان معاہدے کیے گئے تھے، اس لیے انتقامی کاروائی کرنے سے کوئی شرّ پھیل سکتا تھا، یہ ایسے ہی ہے، جیسے آپ a نے منافقوں کو قتل نہ کرنے کییہ وجہ بیان کی تھی: ((لَایَتَحَدَّثُ النَّاسُ اَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ اَصْحَابَہٗ۔)) …’’کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں کہ محمد (a) تو اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتا ہے۔‘‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ a اپنی ذات کی خاطر انتقام نہیں لیا کرتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت تک جادو گر کے بارے میں کوئی خاص سزا نازل نہ ہوئی ہو۔