Blog
Books
Search Hadith

جادو گر کی حد کا بیان

۔ (۶۸۱۱)۔ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو سَمِعَ بَجَالَۃَیَقُوْلُ: کُنْتُ کَاتِبًا لِجَزْئِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ عَمِّ الْأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ فَأَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِہِ بِسَنَۃٍ: أَنِ اقْتُلُوْا کُلَّ سَاحِرٍ، وَرُبَمَا قَالَ سُفْیَانُ: وَسَاحِرَۃٍ، وَفَرِّقُوْا بَیْنَ کُلِّ ذِیْ مَحْرَمٍ مِنَ الْمَجُوْسِ وَانْہَوْھُمْ عَنِ الْزَمْزَمَۃِ، فَقَتَلْنَا ثَلَاثَۃَ سَوَا حِرَ،وَجَعَلْنَا نُفَرِّقُ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ حَرِیْمَتِہِ فِی کِتَابِ اللّٰہِ، وَصَنَعَ جَزْئٌ طَعَامًا کَثِیْرًا وَعَرَضَ السَّیْفَ عَلٰی فَخِذِہِ وَدَعَا الْمَجُوْسَ فَأَلْقَوْا وِقْرَ بَغْلٍ أَوْ بَغْلَیْنِ مِنْ وَرِقٍ فَأَکَلُوْا مِنْ غَیْرِ زَمْزَمَۃَ وَلَمْ یَکُنْ عُمَرُ أَخَذَ، وَرُبَمَا قَالَ سُفْیَانُ: قَبِلَ الْجِزْیَۃَ مِنَ الْمَجُوْسِ حَتّٰی شَہِدَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخَذَھَا مِنْ مَجُوْسِ ھَجَرَ، وَقَالَ اَبِیْ: قَالَ سُفْیَانُ: حَجَّ بَجَالَۃُ مَعَ مُصْعَبٍ سَنَۃَ سَبْعِیْنَ۔(مسند احمد: ۱۶۵۷)

۔ بجالہ کہتے ہیں: میں جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، وہ احنف بن قیس کے چچا تھے، ہمارے پاس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خط آیا،یہ ان کی وفات سے ایک سال پہلے کی بات ہے، اس میںیہ بات تحریر کی گئی تھی کہ ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کر دو اور مجوسیوں میں ہر محرم کے درمیان تفریق ڈال دو اور انہیں زمزمہ سے روک دو، اس حکم کے بعد ہم نے تین جادو گر قتل کئے اور کتاب اللہ کے مطابق حرام رشتوں میں علیحدگی پیدا کر دی، جزء نے بہت سارا کھانا تیار کروایا اور مجوسیوں کو دعوت دی اور تلوار اپنی ران پر رکھ لی، انہوں نے زمزمہ کے بغیر کھانا کھایا اور انہوں نے ایک خچر یا دو خچر کے بوجھ اٹھانے کے برابر چاندی بھی بطور جزیہ دی، مگر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ جزیہ ان سے نہ لیا ، کبھی سفیان راوی اس طرح بیان کرتے: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجوسیوں سے جزیہ لینے کے حق میں نہ تھے، حتیٰ کہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے شہادت دی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہجر کے علاقہ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا، تب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ قبول کرنا شروع کیا۔
Haidth Number: 6811
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۸۱۱) تخریج: أخرجہ البخاری: ۳۱۵۶ (انظر: ۱۶۵۷)

Wazahat

فوائد:… سیدہ حفصہc نے اپنی لونڈی کو جادو کرنے کی وجہ سے قتل کروا دیا تھا۔ (مؤطا امام مالک: ۲/ ۸۷۱) پچھلے باب میںیہ وضاحت کی گئی ہے کہ بسا اوقات جادو کبیرہ گناہ ہوتا ہے اور بسا اوقات کفر، ارشادِ باری تعالی ہے: {وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ} … ’’سلیمان (g) نے تو کفر نہیں کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں نے کیا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے۔‘‘ (سورۂ بقرہ: ۱۰۲) جادو کی جو قسم کفر ہے، اگر جادو گر مسلمان ہو تو اس سے ارتداد لازم آتا ہے اور اس طرح وہ واجب القتل ٹھہرتا ہے۔ امام شافعی نے کہا: جادو گر کو اس وقت قتل کیا جائے گا، جب وہ ایسا جادو کرے، جو کفر تک پہنچاتا ہے، ورنہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام ابو حنیفہ، امام احمد اور امام مالک کی رائے کے مطابق جادو گر کو قتل کیا جائے گا۔ امام شافعی کی رائے راجح معلوم ہوتی ہے۔ لیکن آپ a نے اپنی ذات ِ مبارکہ پر جادو کرنے والے لبید کو قتل کیوں نہیں کروایا؟ دیکھیں حدیث نمبر (۶۸۰۶) کے فوائد زمزمہ: یہ ایک قسم کا کلام تھا، جو مجوسی لوگ کھانا کھاتے وقت ادا کیا کرتے تھے، ان کے دین میں اس کے بغیر کھانا کھانا حلال نہیں ہوتا تھا، دراصل وہ اس کے ذریعے اللہ تعالی کی تعظیم کرتے تھے، یہ ان کی بیوقوفی اور تکلف تھا۔ یہ باتیں ابن حزم نے ’’المحلی‘‘ میں بیان کیں ہیں۔