Blog
Books
Search Hadith

شریعت میں کہانت کے حکم اور اس کے مصدر کا بیان، نیز بعض امور میں کاہن کی کیسے تصدیق کی جائے گی؟

۔ (۶۸۱۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: سَأَلَ اُنَاسٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الْکُہَّانِ، فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیْسُوْا بِشَیْئٍ۔)) فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّہُمْ یُحَدِّثُوْنَ أَحْیَانًا بِشَیْئٍیَکُوْنُ حَقًّا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تِلْکَ الْکَلِمَۃُ مِنَ الْحَقِّ یَخْطِفُہَا الْجِنِّیُّ فَیُقِرُّھَا فِی أُذُنِ وَلِیِّہِ قَرَّ الدَّجَاجَۃِ فَیَخْلِطُوْنَ فِیْہَا مِائَۃَ کَذْبَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۲۵۰۷۷)

۔ زوجۂ رسول سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ لوگوں نے رسو ل اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کاہنوں کے متعلق دریافت کیاآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کبھی کبھییہ ایسی بات کہہ جاتے ہیں، جو سچ ہوتی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ حق بات ہوتی ہے، جس کو جن اچک لیتا ہے، پھر وہ اپنے دوست کے کان میں اس طرح کڑ کڑاتے ہیں، جیسے مرغی کرتی ہے اور وہ اس میں سو جھوٹ ملاتے ہیں۔
Haidth Number: 6814
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۸۱۴) تخریج: أخرجہ البخاری: ۵۷۶۲، ومسلم: ۲۲۲۸(انظر: ۲۴۵۷۰)

Wazahat

فوائد:… اس مسئلہ کی مزید وضاحت درج ذیل ہے : یہ اللہ تعالی کی حکمت و دانائی کے مطابق اس کا نظم و نسق ہے کہ جب وہ وحی پر مشتمل کلام کرتا ہے تو فرشتوں پر بیہوشی طاری ہو جاتی ہے، پھر ان کو حاملین عرش اور جبریل امین وحی کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں، جب یہی فرشتے آسمان دنیا پر وحی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو شیطان ان کی باتیں سن لیتے ہیں، اس چیز کی مزید وضاحت سیدہ عائشہ c کی روایت میں کی گئی ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ((اِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَنْزِلُ فِی الْعَنَانِ ۔ وَہُوَ السَّحَابُ۔ فَتَذْکُرُ الْاَمْرَ قُضِیَ فِی السَّمَائِ ، فَتَسْتَرِقُ الشَّیَاطِیْنُ السَّمْعَ فَتَسْمَعُہُ فَتُوْحِیْہِ اِلَی الْکُہَّانِ ، فَیَکْذِبُوْنَ مَعَہَا مِائَۃَ کَذْبَۃٍ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ۔)) (بخاری: ۳۲۱۰) … ’’جب فرشتے آسمانِ دنیا میں اترتے ہیں اور آسمان میں کیے جانے والے فیصلے کا ذکر کرتے ہیں تو شیطان ان کی بات کو چوری کرتے ہیں، پھر اس کو کاہنوں (اور نجومیوں) تک پہنچا دیتے اور اس کے ساتھ اپنی طرف سے سو سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ ‘‘ اللہ تعالی کے انتظام و انصرام کے بعض امور انسانوں کے لیے آزمائش ہوتے ہیں، ان میں سے ایکیہ ہے۔ جہاں اللہ تعالی نے وحی کی حفاظت کے لیے شہابِ ثاقب کا انتظام کیا ہے، وہاں ممکن تھا کہ ان جنوں کو سرے سے آسمانوں کی طرف چڑھنے ہی نہ دیتا، لیکنیہ اللہ تعالی کی حکمت ہے اور بنو آدم کے لیے آزمائش ہے، بالخصوص ان لوگوں کے لیے جو نجومیوں اور کاہنوں کے پاس جا کر اپنے عقائد کو دیمک لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے واضح کر دیا ہے کہ نجومیوں کے پاس ایک سو ایک دعووں میں سے ایک سچا ہو سکتا ہے، جس کی بنا پر ان کے مریدوں کے یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ قارئین کرام! اگر نجومی اور کاہن لوگوں مستقبل کی پیشین گوئی کرنے کا دعوی کرتے ہیں تو یہ لوگ ایئر پورٹ، اسٹیشن اور لاری اڈے جیسے مقامات پر بیٹھ کر ان جہازوں، ریل گاڑیوں اور بسوں کو کیوں نہیں روک لیتے، جن کا حادثہ ہونے والا ہوتا ہے۔ جو نجومی بزعم خود یہ حساب و کتاب لگا سکتا ہے کہ فلاں آدمی کا بیٹا گم ہونے کے بعد کہاں ہے، وہ اس جہاز اور ٹرین کے بارے میں کیوں غافل ہو جاتا ہے، جو تھوڑے وقت کے بعد سینکڑوں لوگوں کو موت کے کنویں میں پھینکنے والے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات بارشیں نہ ہونے یا کثرت سے ہونے کی وجہ سے زمینداروں کی اربوں کی فصلوں کا نقصان ہو جاتا ہے، یہ لوگ زمینداروں کو فصل کاشت ہی کیوں کرنے دیتے ہیں۔ دو بچوں کا باپ ہمارا ایک دوست ایک نجومی کی آزمائش کے لیے اس کے پاس گیا اور کہا: حضور! میری شادی نہیں ہو رہی، مختلف حربے استعمال کیے، لیکن ناکام رہا، اب آپ ہی ہیں، جو حساب و کتاب لگا کر میرا معاملہ مجھ پر واضح کر سکتے ہیں اور شادی میںمیرا تعاون کر سکتے ہیں۔ وہ نجومی مختلف حربوں ، وظیفوں اور تعویذوں کے ذریعے قسمت آزمائی کرنے لگا اور اس مقصد میں کامیابی کے لیے مختلف مشورے دینے لگا۔ اتنے میں میرے دوست نے چھلانگ لگائی، اس کے کمرے سے باہر آگیا اور اسے مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے تو اللہ تعالی نے ایک بیوی سے دو بچے بھی دے رکھے ہیں، تجھے تو میرے ماضی کی خبر نہیں، تو میرے مستقبل کے بارے میں خاک فیصلہ کرے گا۔ اسی طرح ایک نجومی پولیس والوں کے پاس اپنے مال کی چوری کی شکایت لے کر گیا اور تعاون کی درخواست کی، اللہ کا کرنا کہ پولیس والے صحیح عقائد کے مالک تھے، انھوں نے کہا: حضور! لوگوں کی چوریوں کے بارے میں تو آپ بڑی چھان بین کر کے مجرم تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اپنی چوری میں کچھ نہیں کر سکتے؟ مزید کیا حقائق ہیں، اس مقام پر ان کو قلمبند نہیں کیا جا سکتا، زبانی وضاحت ضرور کی جا سکتی ہے، لیکن کاہنوں پر یقین رکھنے والے لوگوں سے التماس ہے کہ وہ فرضی کہانی بتا کر ان کو ایک دو دفعہ آزمائیں، وہ ان شاء اللہ تیسری دفعہ جانے کی جرأت ہی نہیں کریں گے، کیونکہ سارے کے سارے معاملات ان پر واضح ہو جائیں گے۔