Blog
Books
Search Hadith

فال پکڑنے، زمیں میں خط لگانے اور بدشگونی کا بیان

۔ (۶۸۲۳)۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثَنَا عَوْفٌ عَنْ حَیَّانَ حَدَّثَنِیْ قَطَنُ بْنُ قَبِیْصَۃَ عَنْ اَبِیْہِ أَنَّہ، سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ الْعِیَافَۃَ وَالطُّرُقَ وَالطِّیَرَۃَ مِنَ الْجِبْتِ۔)) قَالَ عَوْفٌ: اَلْعَیَافَۃُ: زَجْرُ الطَّیْرِ، وَالطُّرُقُ: اَلْخَطُّ یَخُطُّ فِیْ الأَرْضِ، وَالْجِبْتُ، قَالَ الْحَسَنُ: إِنَّہُ الشَّیْطَانُ۔ (مسند احمد: ۲۰۸۸۰)

۔ سیدنا قبیصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فال پکڑنے کے لئے پرندوں کو اڑانا،زمین پر لکیریں لگانا اور بدشگونی لینا شیطانی کام ہیں۔ عوف نے کہا: العیافۃ سے مراد پرندوں کو اڑانا، الطرق سے مراد زمین پر لکیریں لگانا اور الجبت سے مراد شیطان ہے، آخری معنی حسن نے بیان کیا ہے۔
Haidth Number: 6823
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۸۲۳) تخریج: اسنادہ ضعیف لجھالۃ حیان ابی العلائ، أخرجہ الیھقی: ۸/ ۱۳۹ (انظر: ۲۰۶۰۴)

Wazahat

فوائد:… عرب لوگ پرندے کے نام، آواز اور گزرنے سے فال پکڑتے تھے۔ ’’جِبْت‘‘ کے معانی کاہن، شیطان اور ہر اس چیز کے ہیں، جس کی اللہ تعالی کے علاوہ عبادت کی جائے۔ دورِ جاہلیت میں بعض اسباب کے ذریعے سے نیک شگونییا بد شگونی لینا عام تھا، مثلا سفر کا ارادہ کرنے والا کسی پرندے کو اڑاتا، اگر وہ دائیں جانب اڑ جاتا، تو وہ اسے سفر بخیر کی علامت سمجھتے ہوئے سفرشروع کر دیتا، اور اگر وہ پرندہ بائیں جانب اڑ جاتا تو وہ اسے منحوس سفر کی علامت سمجھ کر اپنا ارادہ ترک کر دیتا۔ کئی اور علامتیں بھی مقرر تھیں۔ یہ سب امور ممنوع اور حرام ہیں۔ محض کسی بات کے اتفاقیہ طور پر صحیح نکل آنے سے ان تمام خرافات کا جواز ثابت نہیں ہو تا۔ جلب ِ منفعت یا دفعِ مضرت میں ان چیزوں کی کوئی تاثیر نہیں۔ یہ سب ظن و تخمین اور اٹکل پچو باتیں ہیں، جن پر اعتبار اور اعتماد کرنا جہالت، گمراہی اور توہم پرستی ہے۔ لیکن شریعت نے اچھی بات سن کر اچھا شگون لینے کو جائز قرار دیا ہے، جس کی بنا پر انسان اللہ تعالی سے حسنِ ظن قائم کر لیتا ہے، جو ایک مستحسن امر ہے، جیسا کہ سیدنا انس b بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ((لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَۃَ وَیُعْجِبُنِیَ الْفأْلُ۔)) یعنی: ’’نہ کوئی بیماری متعدی ہے اور نہ کوئی بد شگونی ( کی حقیقت ہے)، لیکن مجھے ’’نیک فال‘‘ اچھی لگتی ہے۔ ‘‘ صحابہ نے پوچھا: ’’فال‘‘ کیا ہوتی ہے؟ آپ a نے فرمایا: ((کَلِمَۃٌ طَیِّبَۃٌ۔)) یعنی: ’’اچھی بات (کا سننا اور اس سے خیر کی امید وابستہ کر لینا)۔ (بخاری، مسلم) ایک روایت میں آپ aنے نیک فال کو (( اَلْکَلِمَۃُ الْحَسَنَۃُ۔)) فرمایا، جس پر امام کرمانیl نے لکھا: اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے فطرت میں نیک فال کی محبت رکھ دی ہے، جیسا کہ خوش کن منظر اور صاف پانی کو دیکھنے سے راحت محسوس ہوتی ہے، اگرچہ اس پانی کو استعمال نہ کیا ہو۔ (عون المعبود) مثال کے طور پر کوئی شخص کسی جائز کاروبار یا سفر کا ارادہ کرتا ہے، اس کا ہر دوست بالخصوص نیک بزرگ اس کے اس اقدام کو سراہتے ہیں، اس کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیںیا اس کام کے لئے استعمال ہونے والے تمام اسباب بآسانی میسر ہو جاتے ہیں۔ وہ ان تمام امور سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ کام اللہ تعالی کو پسند ہے، نتیجتاً وہ اللہ تعالی کے بارے میں حسنِ ظن قائم کر لیتا ہے، اس کو اچھا شگون کہتے ہیں، بہرحال مستقبل میں اسے اللہ تعالی کی طرف سے کسی قسم کی آزمائش کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ نیک شگون محض حسنِ ظن کا دوسرا نام ہے، نہ کہ مستقبل میں خطرات کے ٹل جانے کی گارنٹی۔ مسلمان کا شیوہ اچھی فال لینا ہے، نہ کہ بری فال لینا، اس لئے جب کوئی مسلمان کسی جائز کام کا عزم کر لیتا ہے تو کوئی بدشگونی اسے اس سے نہیں روکتی، کیونکہ اس کا یہ پختہ عقیدہ ہوتا ہے کہ نفع و نقصان کے معاملات میں حقیقی مؤثر صرف اللہ تعالی ہے۔ دراصل اچھی فال لینے کو مستحسن قرار دے کر پسِ پردہ اس امر کی بھی ترغیب دلائی گئی ہے کہ ہر مسلمان کو دوسرے مسلمانوں اور ان کے جائز اقدامات کے بارے میں اچھی بات کہنی چاہئے اور اچھی بات ہی سننی چاہئے، جس سے لوگ نیک فال اخذ کریں اور ایسی بات کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے جس سے لوگ کراہت محسوس کریںاور اس سے ان کے دلوں میں بدفالی کا اندیشہ پیدا ہو۔ واضح ہو گیا ہے کہ مسلمان بدشگونی اور بد فالی لیتے ہوئے اپنے عزم کو منحوس نہیں سمجھتا، بلکہ مستقبل کے امور اور نفع و نقصان کو اللہ تعالی کے سپرد کر کے اپنے ارادے کی عملی تکمیل کی طرف گامزن رہتا ہے،یہ بات ذہن نشین رہے بسا اوقات بدشگونی پر مشتمل فرسودہ خیالات کسی کو اپنے گھیراؤ میں لے سکتے ہیں، لیکن اسے اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کو اپنے دل و دماغ سے اتار پھینک دینا چاہئے، جیسا کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ((ذَالِکَ شَیْئٌیَجِدُوْنَہُ فِیْ صُدُوْرِھِمْ، فَـلَا یَصُدَّھُمْ۔)) (صحیح مسلم) یعنی: ’’یہ (بدشگونی) ایسی چیز ہے جسے لوگ اپنے سینوں میں محسوس کرتے ہیں، لیکنیہ ان کو اپنے کاموں (اور منصوبوں) سے نہ روکنے پائے۔ ‘‘ حضرت ابوہریرہb سے مروی ہے کہ رسول اللہ a نے ایک بات سنی، وہ آپ a کو بڑی پسند آئی، سو آپa نے فرمایا: ((أَخَذْنَا فَأْلَکَ مِنْ فِیْکَ۔)) (صحیحہ:۷۲۶) یعنی:’’ہم نے تیرے نیک شگون کو معتبر سمجھا ہے۔ ‘‘ وضاحت نہیں ہے کہ یہ بات کس امر کے بارے میں تھی، البتہ سیدنا انس b بیان کرتے ہیں: ’’اِنَّ النَّبِیَّV کَانَ یُعْجِبُہٗ اِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِہٖاَنْیَّسْمَعَ: یَا رَاشِدُ یَا نَجِیْحُ۔‘‘ (ترمذی) یعنی: جب آپ a کسی حاجت کے سلسلہ میں نکلتے تو پسند کرتے کہ (اپنے اس خروج کے بارے میں لوگوں سے یہ کہتے ہوئے) سنیں: اے راہِ مستقیم کو پانے والے! اے (اپنی حاجت میں) کامیاب ہونے والے۔ یعنی آپ a کییہ تمنا ہوتی کہ کوئی آدمی آپ کی اس تگ و دو کو سراہے اور آپ a کو آپ a کی حاجت پوری ہونے کا مژدہ سنائے۔