Blog
Books
Search Hadith

نجومیت کا بیان

۔ (۶۸۲۷)۔ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ھُرَیْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیُبَیِّتُ الْقَوْمُ بِالنِّعْمَۃِ ثُمَّ یُصْبِحُوْنَ وَأَکْثَرُھُمْ کَافِرُوْنَ یَقُوْلُوْنَ: مُطِرْنَا بِنَجْم کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ فَقَالَ: وَنَحْنُ قَدْ سَمِعْنَا ذَالِکَ مِنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۰۸۱۳)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رات کو قوم پر بارش برسا کر نعمت عطا کرتا ہے، لیکن جب صبح ہوتی ہے تو زیادہ تر لوگ کفر کرتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں: فلاں، فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش نازل ہوئی ہے۔ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: جب میں نے سعید بن مسیب کو یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے بھی کہا: یہ ہم نے خود سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنی ہے۔
Haidth Number: 6827
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۸۲۷) تخریج: حدیث صحیح، أخرجہ البیھقی: ۳/ ۳۵۹، والحمیدی: ۹۷۹ (انظر: ۱۰۸۰۰)

Wazahat

فوائد:… ستارے اللہ تعالی کی مخلوق ہیں، اللہ تعالی نے ان کو تین مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے: ۱۔ آسمانوں کی زینت ۲۔ شیطانوں کی مرمت، یعنی جب شیطان وحی کی باتیں چوری کرنے کے لیے آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔ ۳۔ بعض معاملات میں انسانوں کی رہنمائی، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے: {وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ } (انعام: ۹۷) …’’اور وہ اللہ ایسا ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کو پیدا کیا، تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں ، خشکی میں اور دریا میں راستہ معلوم کر سکو۔ ‘‘ پرانے زمانے میں بحری سفر کرنے والے ستاروں کو دیکھ کر اپنے سفر کی سمت کا تعین کرتے تھے، عصر حاضر میں سائنسی آلات سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ ستاروں کے علم کو علم نجوم کہتے ہیں۔ ستاروں کے تیسرے مقصد کا تعلق انسانوں سے ہے، اس کے علاوہ بنی آدم کاان سے کوئی تعلق نہیں ہے، شارح ابوداود علامہ عظیم آبادیl اس باب کی حدیث ((مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُوْمِ، اقْتَبَسَ شُعَبْۃً مِّنَ السِّحْرِ۔)) …’’جس نے علم نجوم حاصل کیا، اس نے جادو کے ایک جز کی تعلیم حاصل کر لی۔ ‘‘ پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خطابی نے کہا: نجومی لوگ جس علم نجوم کی روشنی میں مستقبل میں پیش آنے والے حادثات و واقعات کو معلوم کر لینے کا دعوی کرتے ہیں، مثال کے طور پر بارشوں کا نزول اور اشیاء کی قیمتوں کا بڑھ جانا، اس سے نبی کریمa نے منع فرما دیا ہے۔ لیکن ستاروں کا وہ علم جس سے نماز کے اوقات کا اور جہت ِ قبلہ کے تعین کا اندازہ ہوتا ہے، اس کو سیکھنے سے منع نہیں کیا گیا۔ شرح السنہ میں ہے: علم نجوم کی جس قسم کی بنا پر نجومی لوگ مستقبل میں پیش ہونے والے حوادث کی معرفت کا دعوی کرتے ہیںاور بسا اوقات ان کی پیشین گوئی مستقبل میں درست ثابت ہوتی ہے، مثلا: مستقبل میں ہواؤں کے چلنے، بارش برسنے، برف باری ہونے، گرمییا سردی پڑنے اور اشیا کے نرخوں کے بڑھ جانے کی خبر دینا۔ بعض اوقات یہ لوگ اس قسم کا دعوی بھی کر دیتے ہیں کہ ستاروں کے چلنے، ان کے جمع ہونے اور ان کے جدا ہونے سے آنے والے زمانے میں پیش آنے والے واقعات کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں۔ شریعت ِ اسلامیہ میں علم نجوم کی اس قسم سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے جس علم کا دعوی کیا جاتا ہے، صرف اللہ تعالی نے اس کے ساتھ اپنی ذات کو موصوف کیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے: {اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ} (لقمان: ۳۴) …’’بیشک اللہ تعالی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش نازل کرتا ہے۔ ‘‘ لیکن علم نجوم کی جس قسم کے ذریعے زوال، اوقاتِ نماز اور جہت ِ قبلہ وغیرہ کا تعین کر لیا جاتا ہے، وہ نہی میں داخل نہیں ہے، کیونکہ اس کا علم ظاہری مشاہدے سے ہی ہو جاتا ہے، (جیسے طلوعِ آفتاب سے نماز فجر کے وقت کے ختم ہونے اور غروبِ آفتاب سے نمازِ عصر کے وقت کے ختم ہونے کا علم ہوتا ہے، سورج ایک ستارہ ہے)، ارشادِ باری تعالی ہے: {وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ }(سورۂ انعام: ۹۷) …’’اور وہ اللہ ایسا ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کو پیدا کیا، تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں ، خشکی میں اور دریا میں راستہ معلوم کر سکو۔ ‘‘ مزید ارشاد فرمایا: {وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ} (سورۂ نحل: ۱۶) …’’اور وہ ستاروں کے ذریعے رہنمائی پاتے ہیں۔ ‘‘ اللہ تعالی نے ان آیات میں بتلایا ہے کہ ستارے تو اوقات اور راستوں کی پہچان کے لیے ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو لوگ قبلہ رخ نہ ہو سکتے۔ سیدنا عمر b نے کہا: ستاروں کا اتنا علم سیکھو کہ جس کے ذریعے قبلہ کی سمت اور راستے کو پہنچان سکو، اتنی مقدار کے بعد ان کا مزید علم حاصل کرنے سے باز آ جایا کرو۔ (عون المعبود: ۲/ ۱۷۷۴) ان احادیث ِ مبارکہ میں آپ a نے علم نجوم سے منع فرما دیا اور اسے جاہلیت کی علامت قرار دیا، جبکہ سیدنا ابوہریرہb بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمa نے فرمایا: ’’جو آدمی کاہن (یعنی نجومی) کے پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کییا جس آدمی نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کیا تو وہ اس چیز سے بری ہو گیا، جو آپ a پر اتاری گئی۔ ‘‘ (ابوداود: ۳۹۰۴، ترمذی: ۱۳۵، ابن ماجہ: ۶۳۹) قارئین کرام! نبی کریمa نے سرے سے نجومیوں کے پاس جانے سے منع کر دیا، تاکہ ان کے اٹکل پچو سے مومنوں کے عقائد متاثر نہ ہوں۔ اجرام فلکی کا نظم ونسق صدیوں سے جاری و ساری ہے، آج تلک اس میں کوئی فساد یا بگاڑ پیدا نہیں ہے، یہ نظام بعض امورِ کائنات پر دلالت کرتا ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنے والا کوئی نہ کوئی اندازہ لگا سکتا ہے، جیسے کوئی آدمی سورج کو دیکھ کر وقت کا اور چاند کو دیکھ کر تاریخ کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ لیکن عقائد کے تحفظ کے لیے نبی کریمa نے علم نجوم کی اس قسم کے علم کے حصول سے سرے سے منع کر دیا ، بلکہ جو لوگ اس علم میں دلچسپی لیتے ہیں، ان کی مجلس میں بیٹھنے سے منع کر دیا۔ آپa نے ستاروں کے معاملہ میں کافی سختی کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب لوگ بارش کے نزول کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے تھے اور اس معاملے میں ستاروں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جو آدمی اللہ تعالی کے سابقہ نظام کی روٹین کو دیکھ کر یہ کہتا ہے کہ جب فلاں ستارہ فلاں مقام پر پہنچتا ہے تو اللہ تعالی بارش نازل کرتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے بارش وغیرہ کے اوقات کے لیے علامات مقرر کر دی ہیں۔ لیکن اس میں علامت بننے والے چیز کا ذاتی کوئی کردار نہیں ہوتا، سارے کا سارا کمال اللہ تعالی کا ہوتا ہے۔ دیکھئے کہ سورج کی روشنییا سورج کا دن اور رات کے آنے جانے کے ساتھ گہرا تعلق ہے، لیکن اس میں سورج کا تو کوئی کمال نہیں ، کیونکہ وہ اللہ تعالی کے حکم کا تابع ہے۔ تنبیہ: غیب کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے، ظاہری اسباب کے علاوہ مستقبل کے بارے میں کچھ ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، لیکنیہاں اس چیز کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے بطورِ آزمائش چند ایسے امور کو وجود دے رکھا ہے، جس سے نجومی اور کاہن لوگوں کا کوئی اندازہ درست ثابت ہو سکتا ہے، جیسے ہرقل اور اس کے ایک دوست نے ستاروں کو دیکھ کر یہ اندازہ کر لیا تھا کہ عرب میں نبی کریمa کا ظہور ہو چکا ہے۔ (صحیح بخاری: ۶) اور ان کا یہ اندازہ درست ثابت ہوا، اس قسم کے کل چار امور ہیں: جنوں کا آسمانوں سے باتیں چوری کرنا، ستاروں سے اندازہ کرنا، ہاتھ کی لکیروں سے اندازہ کرنا اور جنوں کے ذریعے دور کی معلومات کر لینا۔ لیکن اُدھر اللہ تعالی نے اپنے مؤمن بندوں کو ایسے طریقے استعمال کرنے سے اور ایسے لوگوں کے پاس سرے سے جانے سے منع کر دیا، لیکنیہ امور بد عقیدہ لوگوں کے مزید گمراہ ہو جانے کا سبب بنتے ہیں، دراصل یہ اللہ تعالی کی طرف سے آزمائشیں ہیں۔