Blog
Books
Search Hadith

حرام کرنے والی رضعات کی تعداد اور بڑے آدمی کی رضاعت کا بیان

۔ (۶۹۷۲)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا جَائَتْ سَہْلَۃُ بِنْتُ سُہَیْلٍ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّیْ أَرٰی فِیْ وَجْہِ اَبِیْ حُذَیْفَۃَ شَیْئًا مِنْ دُخُوْلِ سَالِمٍ عَلَیَّ، فَقَالَ: ((أَرْضِعِیْہِ۔))، فَقَالَتْ: کَیْفَ اُرْضِعُہُ وَھُوَ رَجُلٌ کَبِیْرٌ، فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((أَ لَسْتُ اَعْلَمُ أَنَّہُ، رَجُلٌ کَبِیْرٌ؟)) ثُمَّ جَائَتْ فَقَالَتْ: مَا رَاَیْتُ فِیْ وَجْہِ اَبِیْ حُذَیْفَۃَ شَیْئًا اَکْرَھُہُ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۰۹)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ سہلہ بنت سہیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! جب سالم میرے پاس داخل ہوتا ہے تو مجھے اپنے خاوند سیدنا ابوحذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے چہرے پر تبدیلی نظر آتی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تواسے دودھ پلا دے۔ اس نے کہا: میں اس کو کیسے دودھ پلاؤں، وہ اتنا بڑا ہے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنسنے لگے اور فرمایا: کیا میں نہیں جانتا کہ وہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ آئی تو اس نے کہا:اب حذیفہ کے چہرے میں کوئی کراہت نظر نہیں آتی۔
Haidth Number: 6972
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۹۷۲) تخریج: أخرجہ مسلم: ۱۴۵۳(انظر: ۲۴۱۰۸)

Wazahat

فوائد:… یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور اس میں غورو فکر کی ضرورت ہے۔سیدنا ابوحذیفہb نے سیدنا سالم b کو متبنّٰی (منہ بولا بیٹا) بنا رکھا تھا، وہ گھر میں بیٹوں کی طرف رہتا اور آتا جاتا تھا، جب یہ حکم اترا کہ منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹوں کی طرح نہیں ہیں اور نہ ان پر حقیقی بیٹوں کے احکام لاگو ہوتے ہیں، تو اب اس سے پردہ فرض ہو گیا، آپ a نے ان کی مشکل کو یوں حل کیا کہ سیدنا ابو حذیفہb کی بیوی سیدہ سہلہc، سیدنا سالم b کو پانچ بار دودھ پلا دے۔ سیدہ عائشہ c کا نظریہیہ تھا کہ جہاں ضرورت پڑے، وہاں اس رخصت پر عمل کیا جا سکتا ہے، جبکہ دوسری امہات المؤمنین ان کے اس نظریے سے متفق نہیں تھیں۔ اگر رضاعت سے متعلقہ نبی کریمa کے قولی اور عمومی ارشادات کو دیکھا جائے تو ان میں صغرِ سنییعنی مدتِ رضاعت کو معتبر اور مشروط قرار دیا گیا ہے، بلکہ اگلے باب کی پہلی حدیث میں تو آپ a نے مدت ِ رضاعت کے بعد دودھ پلانے کی تردید کی ہے۔ صحابہ کی اکثریت اس رخصت کو سیدنا سالم b کے ساتھ خاص سمجھتے تھے، لیکن سیدہ عائشہ c کا موقف یہ تھا کہ اشد ضرورت کے موقع پر اس رخصت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، امام ابن تیمیہ اور امام شوکانی وغیرہ کے نزدیک بھی اس رخصت پر عمل کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن ہمارا نظریہ امہات المومنین اور صحابہ کی اکثریت والا ہے، اس رائے کی تائید کی دو وجوہات ہیں: (۱) اب لے پالک اور منہ بولے بیٹوں کے احکام واضح کیے جا چکے ہیں کہ ان کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے، لہذا اب وہ مجبوری کہاں پیدا ہو سکتی ہے، جو سیدنا حذیفہbکے گھر کا مسئلہ بنی تھی، اب جو آدمی متبنیٰ بیٹے کو حقیقی بیٹے کے احکام دے گا، وہ پہلے سے ہی حرام امور کا مرتکب ہو رہا ہو گا، اس کو مزید کیا رخصت دی جائے۔ (۲) نبی کریمa کے رضاعت کے بارے عام قوانین اور ارشادات، جن میں سے بعض احادیث میں مدت ِ رضاعت کے بعد دودھ پینے کو غیر معتبر سمجھا گیا ہے۔ جو آدمی سیدہ عائشہ c کے نظریے کا حامل ہو، اس کو از راہِ احتیاط اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ سیدنا سالم b کے لیے خصوصیت کا امکان ہے، اگرچہ خصوصیت کا کوئی دلیل نہیںہے، لیکن رجحان کا میلان ضرور ہے اور اس میں زیادہ احتیاط بھی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ یہ مسئلہ لے پالک کے حوالہ سے پیش آئے۔ بعض دفعہ اس کے علاوہ بھی پیش آسکتا ہے۔ عورت بعض حالات کے تحت ایک بچے کو اس کے بچپن میں کھلاتی ہے، دیکھتی ہے، وہ بھی اس کے پاس بلا جھجک آتا جاتا ہے پھر بعد وہ وہ جوان ہو جاتا ہے اوراس سے پردہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے تو اس کے لیےیہ سالم اور سعلہ والی صورت پیش آجائے گی۔ ایسے حالات میں عائشہc کے نظریے کے مطابق رخصت حاصل کی جاسکتی ہے جس کی اصل بنیاد حدیث نبوی ہے۔ (عبداللہ رفیق) امکان سے تو مسئلہ ثابت نہیں ہوگا۔ خصوصیت کے لیے تو دلیل کی ضرورت ہے عمومی دلائل سے یہ خاص شکل منع نہیں ہوگی۔ بلکہ حالات کے تحت یہ خصوصی شکل مستثنیٰ سمجھی جائے گی۔ (عبداللہ رفیق) کس قدر دودھ پینے سے حرمت ثابت ہو گی؟ اگلے باب کی احادیث میں دو امور بیان کیے گئے ہیں: (۱) مدت ِ رضاعت دو سال ہے، رضاعت کے ثبوت کے لیے اس مدت کے اندر اندر دودھ پلانا ضروری ہے، اور (۲) ایک دو دفعہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔ اس موضوع پر سیدہ عائشہ c کی روایت مفصل ہے، وہ کہتی ہیں: کَانَ فِیمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ یُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّہِV وَہُنَّ فِیمَایُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ۔ … جو قرآن مجید میںپہلے حکم نازل ہوا تھا، اس کے مطابق بچے کے دس بار واضح طور پر دودھ پی لینے سے حرمت ثابت ہوتی تھی، پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور پانچ دفعہ واضح طور پر دودھ پینے کا حکم لاگو کر دیا گیا، جب رسول اللہ a فوت ہوئے یہ حکم قرآن مجید میں پڑھا جاتا تھا۔ (صحیح مسلم: ۱۴۵۲) قرآن مجید میںپڑھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ پانچ رضعات کا حکم بالکل آخری دور میں نازل ہوا، آپ a کی وفات تک سب لوگوں کو اس کی تلاوت کے منسوخ ہو جانے کا علم نہ ہو سکا، اس لیے بعض صحابہ کچھ دیر تک اس کو قرآن سمجھ کر پڑھتے رہے، آہستہ آہستہ سب کو پتہ چل گیا اور پھر سب نے اس کی تلاوت چھوڑ دی، البتہ حکم باقی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بچہ پانچ بار کسی کا دودھ پی لے تو تب رضاعت ثابت ہو گی، ایک دو بار دودھ پینے سے رضاعت کا ثابت نہ ہونا، یہ اسلام کا حسن ہے۔ اب ایک بار دودھ پینے کی کیفیت کیا ہو گی، تو گزارش ہے کہ جب بچہ ماں کے وجود کو اپنے منہ میں ڈال کر چوستا ہے اور دودھ پیتا ہے اور پھر کسی عارضے کے بغیر اپنی مرضی سے پستان کو چھوڑتا ہے تو یہ ایک بار دودھ پینا شمار ہوتا ہے، اس کو ایک ’’رَضْعَۃ‘‘ کہتے ہیں۔ جب بچہ پانچ بار اس انداز میں دودھ پی لے گا تو اس کی رضاعت ثابت ہو جائے گی۔