Blog
Books
Search Hadith

اس چیز کا بیان کہ رضاعت میں کس کی شہادت جائز ہو گی

۔ (۶۹۸۱)۔ (وعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) قَالَ: حَدَّثَنِیْ عُقْبَۃُ بْنُ الْحَارِثِ اَوْ سَمِعْتُہ مِنْہُ أَنَّہ تَزَوَّجَ أُمَّ یَحْیَی ابْنَۃَ اَبِیْ إِھَابٍ فَجَائَ تِ امْرَأَۃٌ سَوْدَائُ فَقَالَتْ: قَدْ اَرْضَعْتُکُمَا، فَذَکَرْتُ ذَالِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَعْرَضَ عَنِّیْ، فَتَنَحَّیْتُ فَذَکَرْتُہُ لَہُ، فَقَالَ: ((فَکَیْفَ وَقَدْ زَعَمَتْ اَنْ قَدْ اَرْضَعَتْکُمَا۔)) وَفِیْ لَفْظٍ: ((فَکَیْفَ وَقَدْ قِیْلَ۔)) فَنَہَاہُ عَنْہَا۔ (مسند احمد: ۱۶۲۵۳)

۔ (دوسری سند) سیدنا عقبہ بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اس نے ام یحیی بنتِ ابی اہاب سے شادی کی، لیکن ایک سیاہ فام عورت نے آ کر کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، پھر جب میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اعراض کیا، میں بھی اس جانب ہو گیا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب کیا کریں، جبکہ اس کا خیال ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ ایک روایت میں ہے: اب کیا کریں،جبکہ دودھ پلانے کی بات کہی جا چکی ہے۔
Haidth Number: 6981
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۶۹۸۱) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الاول

Wazahat

فوائد:… اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرضِعہ (دودھ پلانے والی) کی شہادت قبول کی جائے گی اور اس پر عمل کرنا واجب ہو جائے گا، الا یہ کہ ایسے قرائن موجود ہوں، جو واضح طور پر مرضِعہ کے جھوٹا ہونے پر دلالت کر رہے ہوں، مثلا مدت ِ رضاعت میں بچے اور اِس خاتون کا ایک علاقے میں جمع ہی نہ ہونا۔ رضاعت ایک پوشیدہ چیز ہے، اس کے گواہ ممکن نہیں، نہ ایسے مواقع پر گواہ بنائے جاتے ہیں، لہذا رضاعت پر گواہی طلب کرنا فضول ہے، مُرضِعہ کی بات کو معتبر سمجھا جائے گا، جس طرح پیدائش کے بارے میں دائی کی بات ہی معتبر ہوتی ہے اور اس سے گواہ طلب نہیں کیے جاتے، ان مواقع پر گواہی کو ضروری قرار دینا بہت سییقینی باتوں کو جھٹلانے کے مترادف ہو گا، اس لیے رسول اللہ a نے یہ نکاح فسخ کرنے کا حکم دے دیا۔ امام ابو حنیفہ نے اس سلسلے میں دو مردوں اور دو عورتوں کی شہادت کو ضروری قرار دیا ہے، لیکن مذکورہ بالا حدیث ِ مبارکہ سے یہ قید ثابت نہیں ہوتی۔