Blog
Books
Search Hadith

ولیمہ کے حکم، بکرییا اس سے زائد چیز کے ساتھ اس کے مستحب ہونے اور اس سے کم کسی چیز کے ولیمہ کے جائز ہونے کا بیان

۔ (۷۰۳۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: أَوْلَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی بَعْضِ نِسَائِہِ بِمُدَّیْنِ مِنْ شَعِیْرٍ۔(مسند احمد: ۲۵۳۳۲)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسو ل اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ایک بیوی کے ولیمہ کے موقع پر دو مُدّ جو کھلائے تھے۔
Haidth Number: 7036
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۷۰۳۶) تخریج: حدیث صحیح، أخرجہ البخاری: ۵۱۷۲ (انظر: ۲۴۸۲۱)

Wazahat

فوائد:… ولیمہ وہ دعوت ہے جو دولھا کی طرف سے شادی کی خوشی کے موقع پر پیش کی جاتی ہے، ولیمہ شادی کے بعد دوسرے دن کرنا مسنون ہے، کسی شرعی مجبوری کی بنا پر تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک ولیمہ مستحب ہے۔ ولیمہ میں کمی بیشی کی کوئی قید نہیں، بلکہ حسب ِ ضرورت اور حسب ِ توفیق ولیمے کا کھانا پکایا جا سکتا ہے، وہ تھوڑا ہو یا زیادہ، لیکن غلو، نمود و نمائش اور فخر و مباہات سے بچنا ضروری ہے۔ نبی کریمa کے عصرِ مبارک کی اہم خاصیت سادگی اور پر خلوص باہمی محبت تھی، آپ a نے سیدہ زینبc سے شادی کے موقع پر بکری کا، سیدہ صفیہc سے شادی کے موقع پر کھجور اور ستو کا اور بعض بیویوں سے شادی پر دو مد (تقریبا ایک کلو پچاس گرام) کا ولیمہ کیا۔ لیکن آجکل جہاں ظاہری رکھ رکھاؤ، اور ’’بھرم‘‘ برقرار رکھنے کے لیے تکلف کرتے ہوئے ولیمے کی دعوتوں اور شادی کے دوسرے رسم و رواج پر بے دریغ خرچ کیا جاتا ہے، وہاں مستحقین اور حقدار فقراء و مساکین کو کلی طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دعوت دیتے وقت قطعی طور پر اس چیز کو مد نظر نہیں رکھا جاتا ہے کہ فلاں آدمی نیک ہے یا فلاں آدمی غریب ہے، بس مسکراہٹوں کے تبادلے ہو رہے ہیں اور دولت کو دولت کھینچ رہی ہے، یہی دعوتیں ہیں جنہیں بدترین کہا گیا۔ بہر حال مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرنا ضروری ہے۔ جکل شادی کے موقع پر اتنے تکلفات کیے جاتے ہیں کہ یا تو متعلقہ لوگوں کو کئی سالوں تک تیاری کرنا پڑتی ہے یا پھر برسوں تک مقروض رہتے ہیں۔ یقین مانیئے کہ جب رشتہ داروں کو تین چار ایام پر مشتمل شادی کی دعوت دی جاتی ہے، تو ہمارے مشاہدے کے مطابق لوگوں کی اکثریتکو اس بنا پر پریشان پایا جاتا ہے کہ گھر کے ہر فرد کے لیے اتنے ملبوسات کا اہتمام کرنا ہے اور فلاں فلاں رسم میں اتنی اتنی رقم جمع کروانی ہے، محبت کے ظاہری دعووں اور رواجوں کو برقرار رکھنے کے لیے حیثیت سے بڑھے ہوئے تقاضوں کو پورا کیا جا رہا ہے۔ کیا آپ تسلیم کریں گے کہ سیدہ عائشہ c کی رخصتی کے موقع پر ان کو لینے کے لیے آپ a اکیلے گئے تھے اور سیدہ عائشہ c کو اس پروگرام کا علم ہی نہ تھا، آپ a کے ولیموں میں بھی سادگی تھی، سیدہ صفیہc کی شادی کے موقع پر تو آپ a نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ جس کے پاس زائد کھجوریں اور ستو ہے، وہ لے آئے، اسے اکٹھا کر کے ولیمہ کر دیا، آپ a کو اکثر صحابۂ کرام کی شادیوں کا علم ہی نہیں ہوتا تھا؟ لیکن اس دور میں ایسا کرنے والے کو موردِ طعن اور رشتہ داروں کا لحاظ نہ کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ عصرِ حاضر میں حقیقی محبت مفقود ہے، خوشامد، چاپلوسی اور مال و دولت کا ضرورت سے زیادہ اظہار کیا جاتا ہے، مقابلہ بازی ہے، دنیا کو برتری حاصل ہے، …، مستحق، نادار، بے سہارا، لولے لنگڑے اور غریب رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا تو درکنار، زبانی کلامی ان کے دکھ درد میں شریک ہونے والا کوئی نہیں۔ ایسے میں وہی کچھ ہو گا، جو ہو رہا ہے۔