Blog
Books
Search Hadith

ختنہ وغیرہ کے موقع کی دعوت کو قبول کرنے کا بیان اور اس چیز کا حکم کہ چھ افراد کو دعوت دی اور ایک آدمی ان کے ساتھ ویسے ہی چل پڑا

۔ (۷۰۵۷)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: کَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ أَبُوْ شُعَیْبٍ: وَکَانَ لَہُ غُلَامٌ لَحَّامٌ، فَقَالَ لَہُ: اجْعَلْ لَنَا طَعَامًا لَعَلِّیْ اَدْعُوْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَادِسَ سِتَّۃٍ، فَدَعَا ھُمْ فَاتَّبَعَہُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ ھٰذَا قَدِاتَبَعَنَا أَفَتَأْذَنُ لَہُ؟)) قَالَ: نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۱۴۸۶۱)

۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ابو شعیب نامی ایک انصاری آدمی تھا، اس کا ایک غلام قصاب تھا، اس نے اس سے کہا:ہمارے لیے کھانا تیار کر، ممکن ہے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دعوت دوں، چھ افراد کا کھانا ہونا چاہیے، پھر اس آدمی نے ان لوگوں کو دعوت دی، ایک اور آدمی بھی آپ کے پیچھے چل پڑا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس داعی سے فرمایا: یہ آدمی بھی ہمارے پیچھے آ گیا ہے، کیا تو اس کو اجازت دے گا؟ اس نے کہا: جی ہاں۔
Haidth Number: 7057
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۷۰۵۷) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۰۳۶ (انظر: ۱۴۸۰۱)

Wazahat

فوائد:… اس حدیث ِ مبارکہ میں عام ایک دعوت کا ذکر ہے، معلوم ہوا کہ اجازت کے بغیر دعوت میں شرکت نہیں کرنی چاہیے اور اگر اجازت لینے کی صورت میں داعی انکار کر دے تو اس میں کسی کو کوئی چیز محسوس نہیں کرنی چاہیے، دیکھیں کہ نبی کریمa بھی ایک آدمی کے لیے میزبانسے اجازت لے رہے ہیں۔ کسی مسلمان کو کسی وقت بھی دعوت دی جا سکتی ہے، یہ باعث ِ اجرو ثواب عمل ہے، لیکن اب مختلف مناسبتوں سے مسلمانوں میں دعوتوں کی جو روٹین چل پڑی ہے، مثلا: ختنہ، منگنی، مہندی، ابٹن، بارات اور کسی دنیوی کامیابی کے موقع پر پر تکلف کھانے تیار کرنا، خواتین کا خوب میک اپ کر کے اپنی نمائش کرنے کے لیے آنا اور پھر ماحول سے اس قدر متأثر ہونا کہ ہر آدمی کا اپنے حق میں ضروری سمجھنا کہ وہ اس موقع پر کوئی نہ کوئی تحفہ یا نقدی لے کر جائے، پھر میزبان لوگوں کا ان تحائف اور نقدیوں کا ریکارڈ تیار کرنا اور پروگرام کی تکمیل کے بعد یہ جائزہ لینا کہ کون کیا دے کر گیا ہے، اگر کسی نے کم قیمت چیز دی ہے یا بالکل نہیں دی تو اس کے بارے میں سوچنا کہ ہم نے تو اس کی فلاں خوشی کے موقع پر اس کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا، لیکن اس نے تو کسی چیز کا لحاظ نہیں رکھا، اس مجلس میں وہ شخص عظیم القدر قرار پائے گا، جس کا تحفہ بہت قیمتی ہو گا یا جو نقدی زیادہ دے گا۔ اگر اسلام کے مزاج اور دعوتوں کے مقاصد کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ پروگرام تکلف، کراہت اور حرج سے خالی نہیں ہے، ان تقریبات نے غریب بلکہ درمیانی آمدنی والے لوگوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں، لوگ مذہبی رہنماؤں کو باقاعدہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اللہ کے واسطے ان رسموں کو ختم کرو، کوئی مقروض ہو رہا ہے، کسی گھر کا میزانیہ خراب ہو رہا ہے، کوئی بھیک مانگ رہا ہے اور اتنی مذہبی جرأت کسی میں نہیں ہے کہ وہ ایسے پروگرام کا اہتمام نہ کرے یا وہ اس میں شریک نہ ہو، اسلام سادگی والا دین ہے، یہ تکلف سے دور رہنے کیدعوت دیتا ہے، البتہ دلی محبتوں کو ابھارتا ہے اور پر خلوص طریقے سے دعوت دینے کی ترغیب دلاتا ہے، جبکہ اس میں کوئی تکلف نہ ہو۔ پرتکلف لمبے چوڑے ولیمے اور فوتگی کے موقع پر کھانوں کا اہتمام بھی انتہائی محل نظر ہے۔ یہاںیہ نقطہ بیان کر دینا بھی مناسب ہے کہ جن بزرگوں نے ان تقریبات کی بنیاد رکھی، ان کا مقصد باہمی محبت کو فروغ دینا اور ناراضگیوں کو ختم کرنا تھا اور وہ عملی طور پر ایسا کرتے تھے، جبکہ دعوتوں میں سادگی کو برقرار رکھا جاتا تھا، غریب اپنی حیثیت کے مطابق اس پروگرام میں شرکت کرتا تھا اور اگر کسی کی حیثیت اجازت نہ دیتی تو وہ چپ چاپ سے اپنا فریضہ سرانجام دے لیتا تھا اور اب کیا ہے؟ مال و دولت کا اظہار ہے، فخر و مباہات کا ذریعہ ہے، صرف شان و شوکت کا اظہار کرنے کے لیے لاکھوں روپے ٹنیٹ سروس والوں کو بطورِ ٹھیکہ دیئےجاتے ہیں اور مہنگے اور خوبصورت میرج ہال کرائے پر لیے جاتے ہیں، اب مقابلہ بازی ہے، اگر وہ اپنے بیٹے کی شادی پر ایسا پروگرام کرتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے، اُدھر خواتین کے بناؤ سنگھار کے ذریعے بے غیرتی کا اظہار ہے، لیڈیز ہال میں ویٹروں، مووی میکروں اور شرارتی لڑکوں کو اس طرح پھرنے کی اجازت ہوتی ہے کہ لگتا ہے وہ معصوم اور نابالغ بچے ہیں، بڑے بڑے غیرت مند گھرانے اپنی بچیوں کو بیوٹی پارلروں سے رنگ و روغن کروا کر بدکردار نگاہوں کے سامنے بٹھا دیتے ہیں اور مووی میکر تو یوں کہتے ہوئے بھی سنائی دیتا ہے کہ ’’میڈم ذرا ایسے ہو کر بیٹھنا، ذرا سامنے دیکھنا، تھوڑا سا گردن کو اس طرف کرنا، دلہن کے سامنے سے سارے لوگ ہٹ جائیں‘‘، جبکہ دوسرے ہال میں اسی بچی کا والد اور بھائی شریعت کے ٹھیکیدار بنتے ہوئے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ یہ انجام ہے ظاہر پرستی کا اور محبت سے خالی دلوں کا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان تقریبات پر بے تحاشا خرچ کرنے والوں سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں آدمی تمہارا محتاج رشتہ دار ہے اور بڑی مشکل سے زندگی گزار رہا ہے، تو تب تو اس کے ہاتھ بند ہو جاتے ہیں اور وہ عذر خواہی کے لیے چرب لسانی شروع کر دیتا ہے، بلکہ غریب رشتہ داروں سے تعلق توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ کیا تضاد بیانی ہے، بھائی! کل بارات پر تو بارہ سو افراد کے پر تکلف کھانے کا اہتمام کرنا تیرے لیے آسان تھا اور آج ایک گھر کی کفالت تیرے لیے دشوار ثابت ہو رہی ہے، کیوں؟یہ تیری ایمانی کیفیت بدل رہی ہے یا تیرے رجحانات بدل گئے ہیں؟ ہم اس قسم کی سینکڑوں مثالیں عملی طور پر قارئین کو دکھا سکتے ہیں، کروڑ پتی لوگوں کے قریبی رشتہ دار مساجد کے ائمہ و خطباء سے یہ درخواست کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ لوگوں سے ان کا کچھ تعاون کروا دیں، لیکن ان کا نام نہ لیا جائے۔ ہمارے عظیم رہبر و رہنما محمد رسول اللہ a ہیں، آپ a کسی ولیمے پر گھی اور کھجور کا حلوہ کھلا رہے ہیں، کسی بیوی کے ولیمے پر دو مدّ جو کھلا رہے ہیں، آپ a کا سب سے بڑا ولیمہیہ تھا کہ آپ a نے مسلمانوں کے لیے ایک بکری ذبح کی تھی، ایک صحابی اپنے ولیمے پر آپ a کو رات کو بھگوئی ہوئی کھجور کا پانییعنی نبیذ پلا رہا ہے، لیکن جب صدقہ کرنے کی باری آتی ہے تو یہی محمد رسول اللہ a سونا تقسیم کرتے ہوئے اور ایک ایک قریشی کو ایک ایک سو اونٹ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، صحابۂ کرام کے صدقے کی مثالیں بھی اظہر من الشمس ہیں، محتاج کو اس قدر دیا جاتا تھا کہ اس کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی، لیکنیہ اس دور کی صفات ہیں، جس کے لوگوں میں دلی اور پر خلوص محبت ہو، جو نمود و نمائش اور فخرو مباہات سے دور رہنے والے ہوں، جن کی تقریبات کا مقصد اللہ تعالی کو راضٰی کرنا ہو اور جن کا اللہ تعالی اور اس کے رسول سے گہرا تعلق ہو۔ قارئین کرام! یقین مانیں کہ جب لوگوں کو اس قسم کی دعوتیں ملتی ہیں تو وہ پریشان ہو جاتے ہیںکہ وہ اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے اخراجات کا بندوبست کیسے کریں، کئی دعوتوں کے لیے دور دور کا سفر کرنا پڑتا ہے، ہر دعوت میں کوئی نہ کوئی تحفہ اور نقدی دینی پڑتی ہے اور سپیشل ملبوسات زیب ِ تن کر کے جانا پڑتا ہے، یہ ذاتی مشاہدے کی باتیں ہیں۔ ہمارا نظریہیہ ہے کہ سادگی کو ترجیح دی جائے، روح اسلام کو سمجھا جائے اور جس تقریب کا عہد ِ نبوی میںاہتمام نہیں کیا گیا، اس سے باز رہا جائے اور اگر کوئی مالدار ہے تو وہ اس مال کو اللہ تعالی کی امانت سمجھے اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق خرچ کرے، سیدنا عثمان غنیb بھی مالدار تھے۔