Blog
Books
Search Hadith

بیوی پر خاوند کے حقوق کا بیان

۔ (۷۱۱۵)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَایَجُوْزُ لِلْمَرْأَۃِ أَمْرٌ فِیْ مَالِھَا اِذَا مَلَکَ زَوْجُہَا عِصْمَتَہَا۔)) (مسند احمد: ۷۰۵۸)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب عورت کی عصمت کا مالک اس کا خاوند بن جائے،تو عورت کے لیے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں رہتا۔
Haidth Number: 7115
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۷۱۱۵) تخریج: انظر الحدیث السابق

Wazahat

فوائد:… یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر مال و دولت میں تصرّف نہیں کر سکتی۔ سیدنا ابوامامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجۃ الوداع والے سال اپنے خطبہ میں فرمایا: ((لَا تُنْفِقُ اِمْرَأَۃٌ شَیْئًا مِنْ بَیْتِزَوْجِہَا اِلاَّ بِاِذْنِ زَوْجِہَا۔)) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَلَا الطَّعَامَ؟ قَالَ: ((ذَالِکَ مِنْ اَفْضَلِ اَمْوَالِنَا۔)) (ترمذی، ابن ماجہ) … کوئی عورت اپنے خاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز خرچ نہ کرے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کسی کو کھانابھی نہ دے ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کھانا تو ہمارے افضل (اور قیمتی) اموال میں سے ہے۔ سیدنا واثلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (( لَیْسَ لِلْمَرْأَۃِ أَںْ تَنْتَہِکَ شَیْئًا مِنْ مَالِہَا اِلَّا بِاِذْنِ زَوْجِہَا۔)) (طبرانی: ۲۲/ ۸۳/ ۲۰۶، صحیحہ: ۷۷۵) … عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے مال میں سے کچھ بھی خرچ نہیں کر سکتی۔ امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: یہ حدیث اور اس مفہوم پر دلالت کرنے والی دوسری احادیث اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے ذاتی مال میں بھی تصرف نہیں کر سکتی، اللہ تعالیٰ کے فرمان { اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ}کا بھییہی تقاضا ہے۔ لیکن اگر کوئی خاوند سچا مسلمان ہے، تو اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ اس حکم شرعی کو بہانہ بنا کر اپنی بیوی پر جبر کرے اور ایسے مالی تصرف سے بھی روک دے، جس کا ان دونوں کو کوئی نقصان نہ ہوتا ہو۔ غور فرمائیں کہ یہ حکم اس حق سے ملتا جلتا ہے، جو بچی کے ولی کو اس کی شادی کے سلسلے میں حاصل ہوتا ہے کہ جس کی اجازت کے بغیر وہ نکاح نہیں کر سکتی، لیکن جب ولی اس کو نکاح سے روک لیتا ہے تو معاملہ انصاف کا طالب بن کر شرعی قاضی تک جا پہنچتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئیخاوند اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے اور اسے اس کے ذاتی مال میں شرعی تصرف کرنے سے بھی روک لیتا ہے، تو قاضی ان کے درمیان انصاف کی راہ ہموار کرے گا۔ معلوم ہوا کہ حکم میں اشکال نہیں ہے، بلکہ سوئے تصرف میں اشکال ہے۔ (صحیحہ: ۷۷۵) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ مزید لکھتے ہیں: آپ کو علم ہونا چاہیے کہ بعض سلف نے اس حدیث پر عمل کیا ہے، جیساکہ امام طحاوی نے (شرح المعانی: ۲/ ۴۰۳) میں وضاحت کی ہے اور امام ابن حزم نے (المحلی: ۸/ ۳۱۰۔ ۳۱۱) میں سیدنا انس بن مالک، سیدنا ابوہریرہ، امام طاوس، امام حسن اور امام مجاہد کے نام ذکر کیے ہیں، مزید انھوں نے کہا: لیث بن سعد کا بھییہی قول ہے، وہ اس چیز کو جائز نہیں سمجھتے کہ بیوی خاوند کی اجازت کے بغیر مالی معاملات میں تصرف کرے، ہاں معمولی چیز کی گنجائش موجود ہے، جوصلہ رحمییا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ امام ابن حزم نے دوسرے علماء کے اقوال ذکر کیے اور ان کے دلائل کا مناقشہ بھی کیا، وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ بیوی اپنے ذاتی مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کر سکتی ہے۔ انھوں نے اپنے مسلک کے حق میں بعض احادیث ِ صحیحہ پیش کی ہیں، جیسے سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبۂ عید میں عورتوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیا، انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی انگوٹھیاں اور کڑے وغیرہ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کپڑے میں ڈال دیے۔ میں (البانی) کہتا ہوں کہ ابن حزم کی بیان کردہ ان احادیث ِ مبارکہ میں ان کے مسلک کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی، کیونکہیہ مخصوص واقعات پر مشتمل ہیں اور اس باب کی اور دوسری احادیث سے متعارض نہیں ہیں: آپ خود سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث ، جس میں عید کا ذکر ہے، پر غور کریں، اس میں یہ وضاحت موجود ہے کہ عورتوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے صدقہ کیا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ان کو خاوندوں کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت نہ تھی، بلکہ یہ کہا جائے کہ انھوں نے ان کو منع کر رکھا تھا، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مخصوص موقع پر ان کو براہِ راست حکم دیا، توانھوں نے اس حکم نبوی کی تعمیل کی۔ اب کیا کوئی عاقل یہ کہہ سکتا ہے کہ خاوندوں سے اجازت کی پابندی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم پر مقدم تھی۔ حقیقتیہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے واقعی عورتوں کو ان کے خاوندوں کی اجازت کے بغیر صدقہ کرنے سے منع کیا، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی مناسبت کی وجہ سے ان کو صدقہ کرنے کا حکم صادر فرمائیں گے، تو اس حکم کو خاوندوں کی اجازت پر مقدم سمجھا جائے گا، حالانکہ کوئی ایسی دلیل بھی نہیں ہے کہ انھوں نے اپنی بیویوں کو منع کر رکھا تھا۔ حقیقتیہ ہے کہ امام ابن حزم نے جو مسلک اختیار کیا ہے، ممکن ہے کہ ان کی طرف سے یہ عذر پیش کیا جائے کہ ان کے نزدیک وہ احادیث درجۂ صحت کو نہ پہنچ سکیں، جن میں بیویوں کے صدقہ و خیرات کو خاوندوں کی اجازت کے ساتھ معلق کیا گیا ہے، وگرنہ امام صاحب ان کی فوراً تعمیل کرتے،کیونکہیہ ایک مخصوص اورزائد حکم پر مشتمل ہیں، جس سے ان کی بیان کردہ احادیث خالی ہیں۔ لیکن انھوں نے عمرو بن شعیب عن ابیہ … کی اس حدیث کو اس بنا پر معلول قرار دیا ہے کہ یہ صحیفہ منقطع ہے، جبکہ امام احمد سمیت جمہور علمائے حدیث کے نزدیک عمرو بن شعیب کا صحیفہ موصول ہے۔ پھر ابن حزم نے یہ کہا اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اسے منسوخ سمجھا جائے گا، اس کا جواب دیا جا چکا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جزئ، کل کو اور خاص، عام کو منسوخ کر دے؟ کافروں کی تہذیبوں کی موافقت کے خواہاں اور اسلام میں حقوقِ نسواں پر بحث کرنے والے نام نہاد مسلمان اس موضوع پر دلالت کرنے والی احادیث سے غافل اور جاہل ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ علمی اعتبار سے ابن حزم کا مذہب ان کے نزدیک راجح ہے، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی ہدایات کو مغربی کلچر کے قریب تر کر دیا جائے، اس کی ایک شقّ یہ ہے کہ عورت اپنے مال میں خود تصرف کرے۔ لیکن ان بیچاروں کو علم ہونا چاہیے کہ ان دلائل سے ان کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ وہ تو عورت کو غیر کے مال میں بھی تصرف کرنے اور اسے اولیاء کی اجازت کے بغیر شادی کرنے اور اسے ہم راز اور یار بنانے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔ ہمارے اللہ نے سچ فرمایا: {وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصَارٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ}(سورۂ بقرہ: ۱۲۰) … یہودی اور عیسائی اس وقت تک آپ سے ہر گز راضی نہیں ہوں گے، جب تک آپ ان کی ملت کی پیروی نہیں کریں گے۔ (صحیحہ: ۲۵۷۱) قارئین کرام! یقینا آپ کو اور بالخصوص عورتوں کو اس حکم پر تعجب ہو رہا ہو گا کہ خاوند کی اجازت کے بغیر عورت اپنے مال میں بھی تصرف نہیں کر سکتی۔ اس تعجب کی وجہ ہمارا ماحول ہے، جہاں اکثر خواتین کو اپنے خاوندوں کے گھروں میں مجبور و مظلوم کی حیثیت سے زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کو بہترین قرار دیا جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہوتے ہیں۔ خاوند حضرات کو چاہیے کہ وہ حکم نبوی کے مطابق اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، دوستانہ ماحول بنائیں، آپس میں خوش و خرم رہیں، ایک دوسرے کی خوشی غمی کو سمجھیںاور دونوں ایک دوسرے کے والدین اور دوسرے قرابت داروں کی قدر کریں۔ نیز خاوند حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کو کچھ تصرف کرنے کی اجازت دے دیں۔ ایسے ماحول میں ان احادیث پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ عورت اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرسکتی ہے یا نہیں۔ اس بارے حدیث۷۱۱۴ اور ۷۱۱۵ اپنے مفہوم کے اعتبار سے واضح ہے کہ عورت اپنے مال سے کوئی عطیہ وغیرہ دینا چاہتی ہے تو وہ اپنے خاوند سے اجازت لے، پھر یہ کام کرے۔ لیکن ایک حدیث اس بارے صریح ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر عورت مال خرچ کرسکتی ہے۔ صحیح بخاری (۲۵۹۲) میں ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیوی میمونہ بنت حارث نے اپنی لونڈی آزاد کی اور آپ سے اس کی اجازت نہ لی، پھر انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتایا کہ کیا آپ کو پتا ہے کہ میں نے اپنی لونڈی آزاد کر دی ہے؟ آپ نے فرمایا کیا (واقعۃً) تونے یہ کام کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا! ہاں آپ نے فرمایا اگر تو یہ لونڈی اپنے ماموئوں کو دے دینی تو اس سے تجھے اجر و ثواب زیادہ ملتا ہے۔ جب منع و نہی کے مقابلہ میں یہ حدیث صحیح صریح اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اپنا مال خرچ کرسکتی ہے تو اس حدیث کو جواز پر محمول کرنا چاہیے اور نہی کو نہی تنزیہی پر، اس طرح دونوں کی احادیث پر عمل ہو جائے گا امام بخاری ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے باب ہبۃ المرأۃ لغیر زوجہا وعتقہا اذا کان لہا زوج فہو جائز اذا کانت سفیھۃً اس بات کا بیان کہ عورت اپنے خاوند کے علاوہ کسی کو تحفہ دے سکتی ہے اور غلام وغیرہ آزاد کرسکتی ہے خواہ اس کا خاوند ہو، یہ جائز ہے جب وہ بے وقوف نہ ہو۔ خلاصہیہ ہے کہ بہتر ہے کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے ساتھ مال خرچ کرے لیکن اگر وہ اس کے بغیر بھی مال میں تصرف کرتی ہے تو یہ جائز ہے۔ (عبداللہ رفیق)