Blog
Books
Search Hadith

بیوی پر خاوند کے حقوق کا بیان

۔ (۷۱۱۶)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: جَائَتِ امْرَأَۃُ صَفْوَانَ بْنِ الْمُعَطَّلِ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَحْنُ عِنْدَہُ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ زَوْجِیْ صَفْوَانَ بْنَ الْمُعَطَّلِ یَضْرِبُنِیْ اِذَا صَلَّیْتُ، وَیُفَطِّرُنِیْ اِذَا صُمْتُ، وَلَا یُصَلِّیْ صَلَاۃَ الْفَجْرِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، قَالَ: وَصَفْوَانُ عِنْدَہُ قَالَ: فَسَأَلَہُ عَمَّا قَالَتْ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَمَّا قَوْلُھَا یَضْرِبُنِیْ اِذَا صَلَّیْتُ، فَاِنَّہَا تَقْرَأُ بِسُوْرَتَیْنِ فَقَدْ نَہَیْتُہَا عَنْہُمَا، قَالَ: فَقَالَ: ((لَوْ کَانَتْ سُوْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ لَکَفَتِ النَّاسَ۔))، وَأَمَّا قَوْلُہَا: یُفَطِّرُنِیْ، فَاِنَّہَا تَصُوْمُ وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ فَـلَا أَصْبِرُ، قَالَ: فقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَئِذٍ: ((لَا تَصُوْمَنَّ امْرَأَۃٌ اِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِہَا۔)) قَالَ: وَأَمَّا قَوْلُہَا بِأَنِّی لَا أُصَلِّیْ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِنَّا أَھْلُ بَیْتٍ قَدْ عُرِفَ لَنَاَ ذَاکَ لَا نَکَادُ نَسْتَیْقِظُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، قَالَ: ((فاِذَا اسْتَیْقَظْتَ فَصَلِّ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَأَمَّا قَوْلُہَا اِنِّیْ لَا أُصَلِّیْ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَاِنِّیْ ثَقِیْلُ الرَّأْسِ وَأَنَا مِنْ أَھْلِ بَیْتٍیُعْرَفُوْنَ بِذَاکَ بِثِقَلِ الرُّؤُوْسِ، قَالَ: ((فَاِذَا قُمْتَ فَصَلِّ۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۸۱)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا صفوان بن معطل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے شوہر سیدنا صفوان بن معطل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی صورتحال یہ ہے کہ جب میں نماز پڑھتی ہوں تو وہ مجھے مارتا ہے، جب میں روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ افطار کروا دیتا ہے اور وہ طلوع آفتاب کے بعد نمازِ فجر ادا کرتا ہے، اس وقت سیدنا صفوان بھی وہاں موجود تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے ان کی بیوی کے اعتراضات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کا یہ کہنا کہ جب وہ نماز پڑھتی ہے تو میں اس کو مارتا ہوں، تو باتیہ ہے کہ یہ دو طویل سورتیں پڑھتی ہے، جبکہ میں نے اس کو ان سے منع کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر ایک سورت بھی پڑھ لی جائے تو وہ لوگوں کے لئے کافی ہے۔ اس نے پھر کہا: اس کا یہ کہنا کہ جب وہ روزہ رکھتی ہے تو میں اس کو افطار کروا دیتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نوجوان آدمی ہوں اور میں خود پر قابو نہیں رکھ سکتا، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس دن فرمایا تھا کہ کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر ہر گز (نفلی) روزہ نہ رکھے۔ ا ور اس کا یہ کہنا کہ میں نماز فجر طلوع آفتاب کے بعد پڑھتا ہوں، تو گزارش یہ ہے کہ ہم اس قبیلے کے لوگ ہیں کہ ہم سورج طلوع ہونے سے پہلے بیدار ہی نہیں ہو سکتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تو بیدار ہو اسی وقت نماز پڑھ لیا کرو۔ ایک روایت میں ہے: سیدنا صفوان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پس بیشک میرا سر بوجھل رہتا ہے اور ہمارا سارا کنبہ ہی ایسا ہے کہ ہمارے بارے میں یہ معروف ہے کہ ہمارے سر بوجھل رہتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تو بیدار ہو تو اسی وقت نماز پڑھ لیا کرو۔
Haidth Number: 7116
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۷۱۱۶) تخریج: اسنادہ صحیح، أخرجہ ابوداود: ۲۴۵۹(انظر: ۱۱۷۵۹)

Wazahat

فوائد:… دو طویل سورتوں سے مراد یہ ہے کہ اس کے خاوند نے اپنی بیوی کو لمبا قیام کرنے سے منع کیا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ خاوند کی خدمت کو لمبے قیام اور نفل نماز پر ترجیح دی جائے۔ بہرحال ان روایات کا یہ مفہوم بھی نہیں ہے کہ بیوی عبادات، ذکرو تلاوت سے کلی طور پر غافل ہو جائے، جب وہ فکر کرے گی تو خاوند کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس کو موقع ملتا رہے گا اور خاوند کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنی بیوی کا ہر لحاظ سے پاس و لحاظ رکھے، آخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس جوڑے کے لیے خاص دعا کی ہے، جو رات کو اٹھ کر اکٹھا قیام کرتا ہے۔ خاوند کی فرمانبردار ی کرنا بیوی پر فرض ہے، کسی کو سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے سامنے انتہائی عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کیا جائے۔ اگر یہ انداز اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز ہوتا تو وہ صرف بیوی ہوتی جو اپنے خاوند کے سامنے اطاعت کا اظہار کرتی۔ بیویوں کو شاکر اور صابر ہونا چاہیے، ہر وقت طعن کرنے اور خاوند کے منفی پہلوؤں پر کڑی نگاہ رکھنے سے بچنا چاہیے، امہات المؤمنین اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹیوں کی مثالیں ان کے لیے اسوۂ حسنہ ہیں، دنیا صرف یہی نہیں کہ کھانے پینے اور لباس میں اعلی معیار اختیار کر لیا جائے، خاوند کی اطاعت اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حکم ہے، اس لیے ہر ممکنہ حد تک ان کی اقتداء کی جائے۔ اچھی بیوی کی صفات پر مشتمل ایک اور حدیث ِ مبارکہ درج ذیل ہے: سیدنا انس، سیدنا ابن عباس اور سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِنِسَائِکُمْ فِی الْجَنَّۃِ؟ کُلُّ وَدُوْدٍ وَلُوْدٍ إِذَا غُضِبَتْ أَوْ أُسِیَ إِلَیْھَا أَوْ غَضِبَ زَوْجُھَا قَالَتْ: ھٰذِہٖیَدِی فِییَدِکَ لَا أَکْتَحِلُ بِغَمْضٍ حَتّٰی تَرْضٰی۔)) … اب کیا میں تمھیں جنت میں داخل ہونے والی عورتوں کی خبر نہ دوں؟ ہر محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جنم دینے والی خاتون، کہ جب اس پر غصے کیا جاتا ہے یا اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے یا اس کا خاوند اس پر غصے ہوتا ہے تو وہ (اپنے خاوند سے) کہتی ہے: یہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، میں اس وقت تک نہیں سوؤں گی، جب تک تم مجھ سے راضی نہیں ہو جاتے۔ (معجم کبیر، معجم اوسط، معجم صغیر، شعب الایمان، صحیحہ: ۳۳۸۰)